یو ں تو ہر لفظ اپنے اند ر ایک وسعت رکھتا ہے۔اور اُس کی اپنی ہی ایک کائنات ہے۔مگر چند الفاظ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کا تعلق کسی بھی معاشرے یا قوم کیلئے شہ رگ کی حیثیت رکھتاہے۔ان کے معنی یامطلب کو ہیر پھیر سے بیان کیاجائے یا اُن الفاظ کو کسی کے ہاں گروی رکھ دیاجائے تو پھر اُس معاشرے یا قوم کا سب کچھ پابندِ سلاسل ہوجاتا ہے۔ پچھلے دنوں میرے ساتھ ایک دردناک واقعہ پیش آیا۔میرے ایک دوست عرصئہ دراز کے بعد میرے ہاں تشریف لے آئے۔اُن کے یوں آ نے سے مجھے بڑی حیرت ہوئی کیونکہ ہماری آخری ملاقات” توں توں ””میں میں ”کی صورت میں ہوئی تھی۔دراصل وہ کافی عرصئہ میرے لیئے درد سر بنے رہے۔کئی مقامات پر انہوں نے مجھے ذلت کے گڑھے میں دھکیلنے کی بھرپور کوشش کی ۔شومئی قسمت سے ہربارمکمل نیست و نابود ہونے سے بچ جاتا۔ایک مقام تو ہماری رفاقت میں ایسابھی آیاکہ انہوں نے مجھے مکمل طور پر یرغمال بنا لیااورمیںاُنکے سامنے چوں چاں بھی نہ کرسکااور اُن کی ہاں میں ہاں ملادی۔مگر اس فرماں برداری کے بعد وہ بجائے احسان مند ہونے کے مجھے اپنی جاگیرسمجھنے لگ گئے۔میرے کاروباری معاملات ‘سیکورٹی گارڈ کی تعیناتی’ملازموں کی تنخواہیں حتی کہ نجی رابطوں تک پر وہ اپنی نظررکھتے اورتمام معاملات میں دخل اندازی کرتے ہوئے اپنی حاکمانہ رائے دیتے جو درحقیقت ایک آرڈر ہوتی اور اگر اس رائے نماحکم پر عمل درآمد میں ‘میں پس وپیش کرتایا گھرکے افراد سے رائے لینے یا سوچنے کا وقت مانگتا تو وہ مجھے مشکل اوقات میں اُدھاردی ہوئی بھاری بھر کم رقم اور امداد کا احسان جتلاتے’ڈراتے دھمکاتے’دوستی ختم کرنے کا عندیہ دیتے اور ان حالات میں پرانی دوستی اور عیاشی کیلئے ملنی والی ادھارقم کا تسلسل قائم رکھنے کی غرض سے میںاُن کے ناز نخرے اُٹھاتارہا۔اکا دکا معاملات پر ان کے سامنے معاشرے میں اپنے رہے سہے مقام کی دہائی بھی دی ‘مگر نقارخانے میں طوطی کی کون سنتاہے۔حالات جوں کے توں رہے۔ مگر پھر یکدم ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے حالات کو نیارخ دیا۔برسوں پرانے یارانہ کو ہوس و انا کی دیمک نے آدبوچا۔واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ انہوں نے میرے رقبے کے ساتھ پڑی ہوئی دیہہ زمین پر قبضہ کرکے پرانے مالک کو ماربھگایا(دیہہ زمین وہ ہوتی ہے جو کسی کی ملکیت نہیں ہوتی البتہ پہلے سے قابض شخص کا حق زیادہ ہوتاہے)۔میں نے بھی دوستی میں اس ناحق قبضہ کی حمایت کی۔ایک دن ان کے ہاری نے زمین میں سے گھاس پھوس نکالنے اور فصل کی تیاری کیلئے زمین کاشت کرنے کے بہانے دانستہ طورپرمیرے زیرکاشت ملکیتی رقبہ میں ٹریکٹرسمیت گھس کرفصل کو چنگابھلانقصان پہنچایاتو حالات نے کروٹ بدلی۔میرے گھرکے افراد ‘ملازموں ‘سکیورٹی گارڈ زسمیت ہرشخص نے میری پیٹھ ٹھونکی ‘جذبہ دلایااور اس دبائو میں آکرمیں نے کچھ کرنے کی ٹھان لی۔دن گزرتے گئے رابطے کمزورپڑتے گئے اور پھر ایک دن اچانک میرے ذہن میں خیال آیا کہ یہ دوست بھی میرے بغیر دوٹکے کانہیں۔میں نے اپنی زمین سے اُس کے کھیتوں (دیہہ زمین )کی جانب جانے والے تمام راستے مسدور کردیئے ۔جس سے اُس کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔مگر وہ معذرت کرنے کے بجائے مزید اکڑگیا۔اس دن کے بعد سے لے کرحالیہ ملاقات تک ہمارے درمیان کوئی مفاہمت نہیں ہوئی تھی۔اچانک اُس کا آجانا میرے لیئے حیرت کا باعث تھا۔اُس نے دروازہ کھلتے ہی مجھے سینے سے لگایا’مگرمچھ کی طرح آنکھوں سے آنسو توبہائے مگر اب کی بار بھی معذرت کیلئے زبان کو جنبش نہ دی اور ادھر اُدھر کی ہانکنے لگا۔درحقیقت وہ ایک تگڑا زمیندار ہے اور اردگرد کے چھوٹے چھوٹے تمام زمینداروں کو اپنی رعیت گردانتاہے۔اور ان کا ذکر ایسے کرتاہے جیسے اُس کے زر خرید غلام ہوں۔مجھے اُس کی اِس عادت سے سخت چڑہے مگرادھار بھی دیناتھا لہذا چپ چاپ کڑوی کسیلی سنتارہا۔اور فصلوں کے نقصان ‘اس کی بے رحمی کو نظراندازکیئے بغیر کوئی چارہ نظرنہ آیاپھر آخر گھر بھی آیا بیٹھاتھاناں۔چائے بسکٹ آئے تو بسکٹوں کی پلیٹ کو اُس نے نظروں سے نوازا اور چائے کے کپ کو بڑی احتیاط سے چھولیا بوجہ سکیورٹی رسک۔مختصریہ کہ باتوں باتوں میں اُس اپنے آنے کامشن پرتاثیر انداز میں میرے اندر اُتارنے کی کوشش کی۔جو بظاہرتو دوستی تھا مگر حقیقت کے آئینے میں بدترین غلامی۔
نیز وہ اپنی حال ہی میں کرائی گئی ”بیمہ پالیسی” ایسے بیان کر رہاتھا کہ مجھے گمان گزرا کہ ابھی ۔۔کہے گا کہ اس منصوبے کی تکمیل کے بعد تم سمیت تمام بنی نوع انسان کی دنیاوی وآخروی زندگی سدھرجائے گی۔مگر اُس نے زبان سے ایساکچھ نہ کہااگرچہ اُسکی باتوں سے ایسی بو آرہی تھی۔خاطر تواضع کا شکریہ ادا کیا اور پھر وہ چلتابنا۔ اُس کے جانے کے بعد میں سوچ کے سمندر میں غوطے کھانے لگا۔کیونکہ میں اب اس سے مکمل طور پر مایوس ہوگیاتھا اور مجھے حضرت علی کا فرمان رہ رہ کر یاد آرہا تھا”اپنی تمام امیدیں فقط اللہ کی ذات سے وابستہ رکھ۔اس کے سوا کسی شخص سے کوئی امید نہ رکھ جو شخص اللہ کے سواکسی کی آس و امید رکھتا ہے۔وہ ضرور ناکام ہوتا ہے”۔میں نے سوچا چند ٹکوں کی خاطر میں نے اس کی ”پالیسی ”کو اپنی پالیسی کہا۔اپنے ہمسائے کی پرواہ نہ کی۔بس وہ دن ہے اور آج کا دن پالیسی لفظ حلق میں اٹک کررہ گیا۔لہذا اس کو حلق سے اُتارنے کی غرض سے میں نے دنیا کے تمام ممالک کی ‘پارٹیوں ‘اداروں ‘اور افراد کی چھان بین کی ۔چین سے لے کر جاپان تک ‘امریکہ سے لے کریورپ تک تمام ترقی یافتہ ممالک کے افراد’بڑی سیاسی ‘مذہبی وکاروباری شخصیات ‘بشمول تمام نجی وسرکاری اداروں کی پالیسی پر غورکیاسب کی پالیسیاں ملکی مفادات کے گرد گھومتی تھیں۔پھرمیں نے اپنے ملک کی تاریخ کنگھالی ‘ماضی دیکھا ‘حال پرغورکیا ۔سائیکل والے سے لے کر ارب پتی تک کا ماضی وحال دیکھامگر اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ایسے لوگ نظر آئے جو ذاتی مفادات پر ملک کو مقدم رکھتے ہوں۔ ۔جس کسی بھائی نے اس ملک کا سوچااُسے غیرملکی ایجنٹ ‘غداریا رجعت پسندقراردے کر ہم نے راستے سے ہٹادیا۔ترقی یافتہ ممالک اور ہمارے درمیان یہی بڑا فرق ہے ۔اُن کا کم وبیش ہر فردکچھ کرنے سے قبل ملکی مفاد کے متعلق سوچتاہے جبکہ ہم اپنی ذات کے حصارسے ہی نہیں نکل پاتے۔یاد رکھیئے جس دن ہم عوام نے ‘ہمارے رہنمائوں نے ‘ہماری سیاسی ومذہبی جماعتوں اور ہمارے اداروں نے ذاتی مفاد کے بجائے ملکی مفادات کو ترجیح دے کراپنی پالیسیاں مرتب کیں ‘اُس دن قدرت بھی ہماری حالت بدل دے گی’اُس دن پاکستان دنیا کا گیریثرن ہوگا’اُس دن سندھودیش اور آزاد بلوچستان کا نعرہ نہیں لگے گا’اُس دن کراچی میں شانتی ہوگی’ہرسو خوشحالی ہوگی’اُس دن ہمارے ہاں مسخ شدہ لاشیں ملنا بند ہوجائیں گی۔اُس دن سندھی ‘بلوچی’پٹھان ‘پنجابی’سرائیکی سب ایک ہوں گے ۔وہ دن اتنا نزدیک نہیں تو اتنادور بھی نہیں۔ء انشااللہ۔حضرت علی کا فرمان ہے”اپنے نفس کو سنوارنابہت مفید کام اور اللہ تعالی کی رحمت کا امیدوار رہنااچھے درجے کی کامیابی ہے”۔سو آپ بہتری کی اُمید رکھیئے اوراچھے کل کے واسطے اپنا آج بدلیئے۔یو ں تو ہر لفظ اپنے اند ر ایک وسعت رکھتاہے۔اور اُس کی اپنی ہی ایک کائنات ہے۔مگر چند الفاظ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کا تعلق کسی بھی معاشرے یا قوم کیلئے شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے۔ان کے معنی یامطلب کو ہیر پھیر سے بیان کیاجائے یا اُن الفاظ کو کسی کے ہاں گروی رکھ دیاجائے تو پھر اُس معاشرے یا قوم کا سب کچھ پابندِ سلاسل ہوجاتاہے۔لفظ ”پالیسی ”بھی اُن میں سے ایک اہم لفظ ہے۔سمیع اللہ خان