تیزی سے بدلتے حالات و واقعات نے دُنیا کے گلوبل ولیج میں قوموں کے عروج و زوال کی کئی داستانیں رقم کی ہیں۔ترقی وہی قومیں کرتی ہیں جو اپنی غلطیوں سے سبق سیکھیں اور ان سے سیکھے گئے تجربات کی بنیاد پر اپنی ترقی کی عمارت تعمیر کریں۔اس کے ساتھ ساتھ تاریخ کی کتابوں میں انہی قوموں کا نام اچھے الفاظ میں لکھا جاتا ہے جو اپنی تعمیر کے ساتھ ساتھ دوسری قوموں کے ساتھ افہام وتفہیم کا رویہ رکھیں وگرنہ تاریخ کی کتابوں میں بہتیری قوموں کے تذکرے جا بجا بکھرے ملتے ہیں کہ جن کے ذوقِ مہمیزی نے اُنہیں کس طرح زمانے کی گردشوں میں خاکِ راہ کر دیا۔ان قوموں کے شوقِ جنگجوانہ نے اس دُنیا کی دوسری قوموں کو کس طرح متاثر کیا ، یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔انسانوںکے اپنے ہم جنسوں پر تسلط حاصل کرنے کے شوق نے اللہ کے بنائے ہوئے اس چمنِ گل و گلزار کو ہی تباہی کے گڑھے میں دھکیلنا شروع کر دیا تاآنکہ پوری دُنیا ہی اس کی لپیٹ میں آگئی۔ دیگر اقوامِ عالم کی طرح مادرِ وطن پاکستان پر بھی اس عالمی دہشت گردی اور انتہا پسندی نے اپنے پر پھیلا رکھے ہیں، جس سے ہونے والے بھیانک نتائج سے نبرد آزما پوری قوم تھکن سے چور چور ہو چکی ہے۔بدقسمتی سے اپنے آغاز سے ہی پاکستان ایسی سیاست کی نظر ہو گیا کہ جو ہماری قوم کو زوال ہی کی طرف لے کر گئی ہے۔ ہم نے حلیف بھی ایسے چنے کہ جنہوں نے دوستی کی آڑ میں ہمیشہ ہماری جڑیں ہی کاٹیں اور ہمیں کھلے دشمنوں سے زیادہ نقصان پہنچایا۔ہمارے ان حلیفوں کا ہی کارنامہ ہے کہ جنہوں نے اپنے جنگی جنون کو اپنے ممالک کی سرح سے نکال کر ایک عالمی مسئلہ بنایا اور پھر اس جنون سے ہمارے اوپر ایک ایسی جنگ مسلط کر دی کہ جس کی قیمت ہمیں روز روز سینکڑوں معصوم شہریوں کی جان لے کر دینا پڑ رہی ہے۔انہی حلیف طاقتوں نے اپنے مذموم ایجنڈے کی تکمیل کے لئے ہماری قوم کے اندر ہی نقب لگائی اور ایک پوری بریڈ تیار کی کہ جو اپنے نام نہاد امن کے داعی آقائوں کے اشاروں پر کٹھ پتلی کی طرح ناچ رہی ہے۔دوسری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمیں ایک جنگ اپنے بیرونی دشمنوں سے لڑنا پڑ رہی ہے جبکہ دوسری جنگ ہمیں اپنے ان اندرونی دشمنوں سے لڑنا پڑ رہی ہے جو ہم جیسے ہی دِکھتے ہیں اور ہماری نفسیات کے مطابق ہی سوچتے ہیں۔ایسے دشمنوں سے مقابلہ کرنا بیرونی دشمنوں سے لڑنے سے زیادہ دشوار اور مشکل ہے۔پاکستان میں یوں تو اپنے قیام کے بعد سے متعدد ادارے مختلف اوقات میں جہاد کے نام پر آوازیں بلند کرتے رہے ہیں۔ کشمیر ہویا بوسنیا، فلسطین ہو یا افغانستان ہرجگہ پاکستان کی مختلف جہادی تنظیموں میں شامل افراد ان میں حصہ لیتے رہے ہیں۔ جہاد کا فلسفہ بذاتِ خود اُن مغربی اقوام کے لئے نیا نہیں کہ جن کا واسطہ برصغیر پاک و ہند میں آمد کے وقت یہاں کے مکینوں سے پڑا تھا۔ اُس وقت کے مسلمانوں میں کئی منظم تحریکات چلتی رہیں جن کا مقصد ان مغربی قوم کی یلغار کو روکنا تھا۔ان اقوام کے لئے اس مسلم یلغار کو روکنا مشکل تھا ، جس کی وجہ سے اُنہوں نے جواباً ایک نظریاتی جنگ شروع کر دی اور جہاد کے فلسفے کو مسخ کرنے کے لئے مسلمانوں کے اند ر اپنے ایسے ہمدرد پیدا کئے ، جہنوں نے جہاد کے ترک کرنے کے فتوے دینا شرع کر دئیے۔ ان میں سے قادیانیوں کی جانب سے مرزا غلام احمد قادیانی اور اہلِ حدیث فرقے کی جانب سے نواب صدیق حسن خان قابلِ ذکر ہیں جنہوں نے بالترتیب جہاد کے منسوخ ہونے اور انگریزوں کی حکومت کو دار الاسلام قرار دیا تھا۔ان فتووں کی وجہ سے اُس وقت کی عوام النا س جو کہ جہاد میں عملاً شامل تھی، بھی اس تذبذب کا شکا ر ہو گئی کہ آیا جس لڑائی میں وہ شامل ہیں ، وہ جہاد ہے یا قتال؟یہاں یاد رہے کہ قدیم حجاز اور جدید سعودی عرب کے اند رآلِ سعود کی طرف سے حکومتِ برطانیہ کے ساتھ مل کر ترکوں کے خلاف لڑی جانے والی لڑائی کا ایک ورژن اُس وقت کے برصغیر پاک و ہند میں بھی پنپ رہا تھا، جس کو سب تحریکِ بالاکوٹ کے نام سے جانتے ہیں۔اس نام نہاد جہاد جس کی ابتداء ایک مسلم نواب سے لڑائی کر کے کی گئی اور جس کا اصل مقصد انگریزوں کی حمایت میں لڑ کر سکھوں کا دبائو کم کرنا تھا، مولوی سید احمد اور مولوی اسماعیل دہلوی نیسینکڑوں مسلمانوں کو بے گناہ مروا دیا۔انہی دو اصحاب کے پیرو کار جو کہ اصلاً وہابی کے نام سے جانے جاتے تھے اور بعد ازاں مولوی محمد حسین بٹالوی کی درخواست پر انگریزوں کی غیر مشروط حمایت پر”اہلِ حدیث ”بن گئے وہی ہیں، جو اُس وقت سے لے کر اب تک اسلام اور مسلمانوں کو نہایت گمراہ کن عقائد اور نظریات سے تباہ و برباد کر رہے ہیں۔اسی فرقے کی ایک نمائندہ جماعت ، جو ترکِ جہاد کی قائل تھی اس وقت پاکستان میں بھی کام کر رہی ہے۔وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ چونکہ حکمتِ عملی میں بھی تبدیلی آتی جا رہی ہے، لہٰذا اب صاف صاف کھل کر جہاد کی مخالفت کی بجائے ، ایک نیا نظام مربوط کر لیا گیا ہے جس میں نوجوان نسل کو انتہا پسندی اور گمراہی کی طرف دھکیلاجا رہا ہے۔پاکستان کے موجودہ معاشی اور معاشرتی حالات جس نہج پر ہیں، اُس کی وجہ سے روزمرہ کے معاملات کا زیادہ شعور نہ رکھنے والے نوجوان ، جس کہ کم تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ کسی اچھے روزگار کے حصول سے بھی مایوس ہوتے ہیں، ایسی تنظیموں کا نہایت آسانی سے شکار ہو جاتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایسے مایوس نوجوان مسلسل تربیت اور برین واشنگ سے ایک ایسی نہج پر پہنچ جاتے ہیں جہاں اُنہیں یہ معاشرہ اپنا دُشمن ، کفر و غلاظت سے بھرا ہوا نظر آتا ہے اور وہ اس کے تطہیر کے عمل کے لئے ان تنظیمات کے سکھائے ہوئے اصولوں پر چلتے ہوئے اس معاشرے کو اپنی سوٹی سے ہانکنا شروع کر دیتے ہیں۔کم فہمی اور امور کا ادراک نہ ہونے کی وجہ سے ان نوجوانوں کی خود ساختہ تطہیر کا عمل آہستہ آہستہ انتہا پسند ی کی حدوں کو چھونا شروع ہو جاتا ہے اور اُنہیں احساس تک نہیں ہوتا۔اس تنظیم نے پورے پاکستان میں مدارس اور جامعات کی آڑ میں اپنا ایک نہایت مضبوط نیٹ ورک قائم کر لیا ہے جہاں سے تعلیم حاصل کرنے والے نوجوان مسلسل کی جانے والی برین واشنگ کی وجہ سے معاشرے کے لئے نہایت خطرناک بن جاتے ہیں۔ان نوجوانوں کے مذموم مقاصد بالآخر نہ صرف معاشرے اور مذہب بلکہ ملک کے لئے بدنامی کا باعث بن جاتے ہیں۔دُشمن عناصر بھی نہایت ہوشیاری سے اپنے پتے کھیلتا رہتا ہے۔ ایک طرف وہ اس طرح کی تنظیموں کوبین الاقوامی سطح پر بدنام کروانے کی سازشوں کے تانے بنتے ہیں ، جبکہ دوسری طرف وہ خفیہ طور پر ان تنظیموں کی مکمل سرپرستی کرتے ہیں۔ یہ تنظیمیں بھی ملک اور قوم دشمن سرگرمیاں اس طرح کی قوتوں کی سرپرستی میں کھل کر سرانجام دیتی ہیں کیونکہ اُنہیں کسی مزاحمت کا ڈر نہیں ہوتا۔ ظاہری طور پر جبرو استبداد کے خلاف لڑی جانے والی جنگ کا اصل نشانہ معصوم شہری ہی بنتے ہیں۔اگر اس سے کسی کو کوئی اختلاف ہے تو وہ صرف مقبوضہ کشمیر میں جہاد کے نام پر کھیلے جانے والے کھیل کی تفصیلات انہی تنظیمات کے رسالوں اور لٹریچر سے پڑھ کر اپنے دل کی تشفی کر سکتا ہے۔ان تنظیموں کے رسالوں میں دئیے جانے والے تباہی کے اعداد و شمار اور ان کے نام نہاد مجاہدین کی داستانیں سن کر سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ہوتا کچھ یوں ہے کہ پہلے مرنے مارنے سے گریزاں انڈین افواج کو کی اس نہج پر پہنچا دیا جاتا ہے جہاں وہ مقامی آبادی پر چھاپے مار کر معصوم اور بے گناہ نوجوان شہریوں کو پکڑ لیتی ہے۔ اس طرح کے چھاپوں میں پکڑے جانے والے زیادہ تر نوجوانوں کی تعداد کبھی زندہ سلامت واپس نہیں آتی۔ اس کے علاوہ سب سے بڑا دوسرا مسئلہ جو اس طرح کی مذموم کاروائیوں سے ہوتا ہے وہ عورتوں کی پکڑ دھکڑ ہے جس میں زیادہ تر عورتیں اپنی عصمت کھو بیٹھتی ہیں۔چنانچہ مجموعی طور پر ان تنظیموں کی حکمتِ عملی سے متاثر ہونے والے معصوم شہری ہی ہوتے ہیں۔چونکہ پاکستان میں ہر جگہ مذہب کی بالادستی دیکھی جاسکتی ہے جس کی وجہ سے جہادی تنظیموں کو اپنے عقائد اور نظریات پھیلانے کے لئے ایک نہایت سجا سجایا پلیٹ فارم مل جاتا ہے۔کچھ عرصے پہلے تک ان تنظیمات کا نشانہ بالخصوص نوجوان طبقہ ہی ہوتا تھا، جس پر کی جانے والی مسلسل محنت کے نتیجے میں اس طبقے میں حکومت اور معاشرے میں رائج اقدار سے بغاوت کے جذبات اُبھرنا شروع ہو جاتے ۔ یہ نوجوان طبقہ ان کے لئے نہایت قیمتی سرمائے کی حیثیت رکھتا ہے، لیکن موجودہ دور میں سوچ کا معیار کچھ بہتر ہونے کی وجہ سے اس طبقے کی میں ان تنظیمات کو مشکلات پیش آنا شروع ہو گئیں۔ اس کا ادراک کرتے ہوئے ان تنظیمات نے ایسے مدارس بنائے جن میں نہایت چھوٹی عمر سے ہی بچوں کو داخل کر لیا جاتا اور ایسا نصاب بڑھا یا جاتا ہے جس سے ان کی ایک مخصوص انداز میں ذہن سازی ہوتی رہتی ہے۔یہی بچے آہستہ آہستہ انجانے میں ایک ایسی سوچ کے حامل بن جاتے ہیں ، جو اُن کے مطابق صحیح اسلام کی نمائندہ ہوتی ہے اور معاشرے میں رائج اقدار اور اُن کا اسلام ، اِن کے لئے ناقابلِ قبول ہو جاتا ہے۔تحریر:ساحرقریشی