دنیا کی بڑی طاقتیں ایک طویل عرصہ سے اسلامی ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت اور سازشوں کے ذریعے ان کے نقشہ جات تبدیل کرنے کی منصوبہ بندی اور کوششوں میں مصروفِ عمل ہیں ۔امریکی تھنک ٹینکس کے تیار کردہ نئے نقشہ میں پوری اسلامی دنیا کے حصے بخرے کرنے کا منصوبہ شامل ہے اور یہ نقشہ یو ایس میرین کے آفیسر ٹریننگ میں پڑھایا جاتا ہے۔ چند سال قبل پاکستان، ایران اور افغانستان کے حوالے سے ایک نیا نقشہ منظرعام پر آیا ہے۔ اس نئے نقشے میں پاکستان محض صوبہ سندھ اور پنجاب پر مشتمل ہے جبکہ بلوچستان کو ایک آزاد اور صوبہ سرحد (خیبرپختونخواہ) سمیت شمالی علاقوں کو افغانستان کا حصہ دکھایا گیا ہے۔ اس طرح اس نئے سازشی نقشہ میں پاکستان کا علاقہ بہت محدود کر دیا گیا ہے۔ اس نقشے کی بنیاد آرمڈ فورسز جرنل کے جون دو ہزار چھ میں شائع ہونے والا ایک آرٹیکل ہے جو ایک ریٹائرڈ آرمی کرنل، ناول نگار اور کالم نویس رالف پیٹرز نے لکھا تھا۔ بعد میں یہی نقشہ نیویارک ٹائمز نے بھی شائع کیا اور ساتھ ہی یہ تاثر بھی دیا کہ اس نقشہ کے سامنے آنے سے پاکستان کے مختلف حلقوں میں بے چینی کی لہر دوڑ گئی ہے اور امریکیوں کے اس نقشے کے بعد پاکستانی فوجی افسران سمیت پاکستانی باشندوں پر یہ حقیقت کھل گئی ہے کہ امریکا اسلامی دنیا کی واحد نیوکلیئر طاقت کو توڑنا چاہتا ہے۔
ایٹمی پاکستان کے موجودہ معروضی حالات آج کل انتہائی اہم اور نازک موڑ سے گزر رہے ہیں۔ ایسی صورت میں اس نقشے کی حقیقت کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ دشمنانِ اسلام کس طرح اسلامی دنیا کی پہلی ایٹمی طاقت کو توڑنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہیں۔ پاکستان ایک طویل عرصہ سے دشمن قوتوں کی آنکھوں میں کھٹک رہا ہے ۔ یہ بیرونی طاقتیں اس ملک کا شیرازہ بکھیرنے کی کوششوں میں سرگرم عمل ہیں۔ ان کا ماضی اور حال پاکستان دشمن سرگرمیوں سے بھرا پڑا ہے۔ اپنے ان ناپاک عزائم کی تکمیل کے لیئے ان طاقتوں نے بلوچستان، خیبرپختونخواہ اور سندھ میں ایسے ایجنٹ بھرتی کئے جو پاکستان کے وجود کو ہی تسلیم نہیں کرتے۔ ان ایجنٹوں کو جو اسلحہ اور بارود افغانستان اور ایران کے راستے سے فراہم کیا جاتا ہے۔ یہ طاقتیں بلوچستان کو پاکستان سے علیحدہ کرنا چاہتی ہیں تاکہ پاکستان اپنے ساحل، سٹریٹجک اہمیت کی حامل گوادر بندرگاہ اور بیش قیمت معدنیات سے ہمیشہ کے لیئے محروم ہو جائے۔ سندھ میں ہونے والے فسادات کی کڑیاں بھی انہی قوتوں سے جا ملتی ہیں جبکہ خیبرپختونخواہ میں ہونیوالی دہشت گردی بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اس نقشے کے ذریعے سازشی قوتیں خیبرپختونخواہ ، قبائلی اور شمالی علاقہ جات کو افغانستان میں شامل کرنے کا تاثر دے کر پاکستان اور چین کے درمیان واحد زمینی راستہ بھی منقطع کرنا چاہتی ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ ان ایجنٹوں کے ذریعے پاکستان کو معاشی طور پر مفلوج کرنے کی سازش کی جا رہی ہے اور یہ لوگ پاکستان کو پیاسا اور بجلی سے محروم کرنے کی سازش میں ان قوتوں کے ہم رکاب بنے ہوئے ہیں۔ پاکستان اس وقت ایسے دشمنوں کے گھیرے میں ہے جو بظاہر دوست ہونے کے دعویدار ہیں۔ ملا عمر کی شوریٰ کو کبھی کوئٹہ میں دکھایا جاتا ہے تو کبھی کراچی میں، کبھی قبائلی علاقوں میں حقانی نیٹ ورک کا شوشا چھوڑا جاتا ہے تو کبھی اتحادی افواج کی ناکامی کا ملبہ پاکستان پر گرا دیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ پاکستان کی سکیورٹی سے منسلک انتہائی منظم ادارے فوج اور آئی ایس آئی بھی ان کہانیوں کی زد سے باہر نہیں ہیں۔ پاکستان کی محافظ آرمی ہے جبکہ آئی ایس آئی اس کیلئے آنکھ کا کام کرتی ہے۔ ایٹمی بم بھی پاکستان آرمی کے کنٹرول میں ہے اس لیئے شیطانی اتحاد ثلاثہ کی گیم یہ ہے کہ آنکھیں پھوڑ دو، جسم گرا دو، ہتھیار لے لو پھر پاکستان خود بخود ٹوٹ جائیگا۔ یہی وجہ ہے کہ آئی ایس آئی اور پاک فوج کو سب سے زیادہ نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ان اداروں پر جائز تنقید کا حق ہر کسی کو حاصل ہے لیکن کچھ عناصر ایسے بھی ہیں جو ناامیدی پھیلانے کے مشن پر گامزن ہیں۔ ان عناصر کا کام اپنے مخصوص ایجنڈے کو پورا کرنا ہے لہٰذا ان سے ہوشیار رہنا انتہائی ضروری ہے۔ امریکی ایوانِ نمائندگان کی امورِ خارجہ کمیٹی میں بلوچستان کی صورتحال پر قرارداد بھی اس سازش کی طرف اشارہ کر رہی ہے جو ماضی میں پاکستان کے نئے نقشے کے ذریعے سامنے آئی ہے۔ کیلیفورنیا سے ایوان کے رکن ڈینا روباکر امریکی ایوانِ نمائندگان میں یہ مطالبہ کر چکے ہیں کہ امریکہ کو خود مختار بلوچستان کی حمایت کرنی چاہئے۔ ڈینا روبارکر کانگریس کے وہی رکن ہیں جنہوں نے اسامہ بن لادن کے بارے میں سی آئی اے کو معلومات دینے والے پاکستانی ڈاکٹر شکیل آفریدی کو امریکی شہریت کا بل بھی کانگریس میں پیش کیا تھا۔ پاکستان کی سلامتی کے لیئے ضروری ہے کہ ہم اپنے سکیورٹی اداروں کے ہاتھ مضبوط کریں نہ کہ ملک دشمن ایجنٹوں کی باتوں میں آ کر ان اداروں کو تنقید کا نشانہ بنائیں۔ ان ملک دشمن عناصر سے اگر یہ سوال کیا جائے کہ آپ بلوچستان میںبھارت اور امریکہ کے کردار کو کس تناظر میں دیکھتے ہیں تو وہ کوئی معقول جواب دینے کی بجائے اپنی توپوخ کا رُخ فوراً آئی ایس آئی اور ایم آئی کی طرف موڑ دیتے ہیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ملک کو نئے یونٹوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ ہمارے سامنے ایک واضح مثال موجود ہے کہ بھارت نے خالصتان تحریک کو پنجاب کو تین صوبوں میں تقسیم کرکے کچلا۔ یہ غلط فہمی ہے کہ پاکستان نئے صوبے بننے سے ٹوٹ جائے گا ، نئے صوبے یا انتظامی ریاست کا بننا پاکستان کو توڑنے کے ہرگز مترادف نہیں ہے۔ پاکستان میں آج تک جتنی بھی دہشت گردی ہوئی اگر اتنی کسی اور ملک میں ہوتی تو وہ ملک کب کا ٹوٹ چکا ہوگا لیکن الحمد اللہ پاکستان پھر بھی قائم ہے اور قائم رہے گا۔ اللہ تعالیٰ اس ملک کو اندرونی و بیرونی تمام دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھے اور پاکستانی قوم کو ان دگرگوں حالات میں حقیقی محب وطن قیادت عطاء فرمائے۔ آمینتحریر: نجیم شاہ