بسنت کا نام سنتے ہی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور باربار توجہ اس نتائج پرجاتی ہے تو اہل وطن کی اس انسیت پر دل خون کے آنسو روتا ہے ۔آپ کہیں گے کہ ہم جو مرضی کریں آپ جانیں اور آپ کا دل…مگر شائد آپ کے ضمیر کی اتھاہ گہرائیوں میں ایمان کی روشنی آج بھی بقعہ نور بن کر چمک سکتی ہے کہ جب ہم ان امور کوسمجھنے لگیں جو ہماری دنیا و آخرت دونوں میں معاون ہیں۔ہمارے ہاں جس چیز کی سب سے بڑھ کرکمی ہے وہ ہے سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا۔اکثر لوگ عیش و عشرت اور رنگینیوں میں کھو جانے کے بعد تباہی کے دھانے پر پہنچ چکے ہوتے ہیں تو انہیں ہوش آتا ہے لیکن پھر سوائے نقصان کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔اگر سوچا جائے کہ ہم مسلمان ہیں اور ہماری طرز زندگی ہمیشہ غیر مسلموں سے مختلف ہونی چاہئے۔ہمارا اولین دین اور دیگر معاملات انفرادیت رکھتے ہوںتو یہ عظمت انسانیت کی دلیل بن سکتی ہے ۔مگر جب ہم مسلمان کہلانے کے باوجود اللہ تعالیٰ اور اس کے محبوب کا دین اپنانے کے باوجود غیر مسلموں کی روش اختیار کریں۔انہیں کی طرز معاشرت اپنالیں تو مسلمانی کیا ہوئی ایک مسلمان کبھی یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ شان خداوندی یا اس کے پیارے محبوب کی بارگاہ میں بے ادبی کی جائے اور ان کو اذیت دی جائے مگر یاد رکھیں جب ہم قرآن و حدیث کے احکامات کو پش پشت ڈال کر اپنے نفس کی پیروی میں لگ جائیں تو یہ بھی ادب کے خلاف ہے کہ جن کا نام لیتے ہیں ان ہی کی باتوں پر عمل کرنے سے کتراتے ہیں اور کفارومنافقین کے قدموں سے قدم ملاتے ہیں۔
حضور اکرم نے ارشاد فرمایا۔
من تشبہ بقوم فحومنہ:
”جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرتا ہے وہ اسی میں سے ہوتاہے۔ذرا غور کریں کون سا کام ہم اپنے دین اور دینداروں کی طرز پر کرتے ہیںاور کون کون سے کفار و یہود کی پیرو ی میں کرکے انکی مشابہت اختیار کررہے ہیں؟؟؟اگر آپ نے غور کیا تو معلوم ہوگا کہ زندگی بھر صبح سے شام تک سوائے چند افراد کے جو نماز روزہ کرلیتے ہیں باقی سب کا حال یہ ہے کہ نہ صبح خیزی کی عادت نہ نماز و عبادت دنیا کی رنگینیوں میں کھونا دیر سے سونا فحش اور غیر شرعی اعمال نہ صبح اچھی نہ شام کا حال کیا ہم اسی مقصد کے لیے پیدا ہوئے ہیں؟کیا ہماری نسلوں کے خون میں صرف شیطان کا اثر ہونا چاہئے؟کیا ان کی نگہداشت و تربیت میں ہماری ذمہ داری ختم ہوچکی ہے؟ان سب باتوں پر غور کریں اور توجہ سے سوچیں کہ”بسنت”کیا ہے؟یہ کہاں سے چلی ہے؟اور لوگ اس کے پس پشت اپنی جانوں پر کتنا ظلم کیے جاتے ہیں ؟بنیادی طور پر بسنت ہندوئوں کا تہوار ہے۔یہ انہیں کی رسم اور کھیل ہے۔مگرحیرت ہے ان لوگوںپر جنہوں نے دین اسلام میں پناہ لے رکھی ہے اور مسلمانی کا دعویٰ کرتے ہیں مگر مشابہت اسی قوم کی اختیار کرتے ہیں جن سے بچنا چاہئے۔بڑے بڑے سیاستدانوں جاگیردار اور نیکی کے دعویدار اس رسم کے دلدادہ ہیں اور سرکاری سطح پر بھی”بسنت میلہ”کا اہتمام خوب کیا جاتا ہے وہ لوگ جو چند منٹ کے لیے بارگاہ خداوندی کی حاضری کا وقت نہیں نکال سکتے۔
میوزک کی آواز اور لغویات کے سائے میں سارا سارا دن گزار دیتے ہیں۔وہ لو گ جو راتوں کو عبادات وریاضت کو فضول سمجھتے ہیںاور زندگی بھر قیام سے محروم رہتے ہیں ”بسنت نائٹ”بڑے شوق سے مناتے ہیں۔آہ یہ مسلمان ہیں انہیں دیکھ کر شرمائیںیہود ،یہ پتنگ تو کاٹ رہے ہیں مگر کہیں ایسا تونہیں کہ ان کا رابطہ اللہ اور اس کے حبیب سے کٹ رہا ہے۔یقینا جب انکی نافرمانی کے ذریعے پاس ادب نہ کریں گے تو رابطہ منقطع ہوگا ہی۔اتباع سنت کا راستہ چھوڑ کر اتباع الشیطان کی جاتی ہے اور دن رات شوروغل سے طوفان بدتمیزی اپنی مثال آپ ہوتا ہے۔بسنت نہ صرف غیر اسلامی تہوار کی نقل ہے بلکہ کروڑوں روپے اس پر ضائع کیے جاتے ہیں۔مگر ہر شخص یہی کہتا نظر آتا ہے کہ یہ تو چند روپوں کا کھیل ہے۔ ارے تمام لوگ چند روپے خرچ کرتے ہیں مگر لاکھوں افراد کے چند روپے کروڑوں کا روپ دھار لیتے ہیں۔ایک غریب آدمی بھی اپنے لڑکے کی خوشی کے لیے آٹا دال پوری کرنے کے بجائے پتنگ پر رقم صرف کرتا ہے۔
یہ اس کی ظاہر تو اولاد سے محبت ہے کہ ان کی خوشی حاصل کررہا ہے مگر حقیقتاً اپنی اولاد کی جان و اخلاق کا دشمن ہوگیا ہے۔دیکھو وہی بچہ چھت پر شرارت کررہاہے دوسرے بچے گالیاں دے رہے ہیں اور وہ بھی سیکھ رہا ہے اسلام میں گالی دینا سخت کناہ ہے مگر یہاں گالیاں سکھائی جارہی ہیں۔دوسری طرف لڑکے آپس میں جھگڑ پڑتے ہیں اور چند روپوں کی پتنگ جان لے جاتی ہے پھر یہی نہیں آئے روز کتنے ہی لوگوں کے لخت جگر بجلی کا کرنٹ لگنے یاچھت سے گر کر ہلاک ہوچکے ہیں۔مگر نشہ ہے کہ بڑھتا ہے اور ہر سال اس طوفان بدتمیزی کی نگہداشت کی جارہی ہے ایک بات جو بہت ضروری ہے عرض کرتے چلیں کہ جس کاغذ سے پتنگ بنائی جاتی ہے اور دھاگہ جو ڈور کی صورت میں استعمال کیا جاتاہے دونوں باہر کی غیر مسلم ممالک خصوصاً بھارت سے منگوائے جاتے ہیں اور بھارت کو اس قبیح کام کے لیے کروڑوں روپے کی آمدن دی جاتی ہے آہ آج ہم کشمیر کا رونا روتے ہیں لیکن شاید کشمیریوں سے سچی محبت نہیںرکھتے۔ورنہ بھارت کو کسی بھی انداز میں آمدن کا ذریعہ پیدا نہ کرنے دیتے کہ انہیں پتنگوں کو بیچ کر اس کی رقم سے گولیاں اور پتنگ خریدے جاتے ہیں جو کشمیری مسلمانوں پر برسائے جاتے ہیں۔کاش ہم مسلمان ہوکر اہل کشمیر اور دنیا کے دیگر مظلوم مسلمانوں سے ہمدردی جتلانے کی بجائے پہلے اہل کفر کو پہنچنے والی امداد کے راستے بند کرتے اور ان کے معاون نہ بنتے مگر”بسنت میلہ”تو منانا ضروری ہے چاہے جان جائے یاکشمیرجائے؟؟؟اے مسلمانوں تمہیں کیا ہوگیا ہے۔اپنے اسلاف کی تعلیمات کو اور بزرگوں کی روایات کو چھوڑ کر کس راہ پرچل نکلے ہو؟جان لو یہ بسنت نہیں بلکہ اس کی آڑ میں کشمیریوں پر ظلم ہے تمہارے مال و دولت کس کا پیٹ بھررہے ہیں۔تمہاری طرف سے ملنے والی آمدن سے غیر مسلم قومیں پلتی ہیں۔اور تمہاری طرف توپوں کا رخ کرکے تمہاری ہی جانوں کا خون کرتی ہیں۔آہ آج ہم سب جاننے کے باوجود بھارت کو کتنی امداد دے رہے ہیں یہ امداد ویڈیو کیسٹوں اور ڈور کے دھاگے کی آڑ میں مسلسل دی جاتی ہے۔
انہیں کے اداکاروں کی زبان سے لغو اور فحش گائے جانے والے گانے تمہاری زبانوں کی بھی زینت بن رہے ہیں۔وہ زبانیں جو یاد خداوندی میں تر ہونا تھیں بوکاٹا بوکاٹا کی صدائیں اور گانے گانے میں مصروف ہیں۔آج کشمیر کا ذرہ ذرہ پکا رہا ہے کہ شہیدوں کے لہو سے بے وفائی مت کرو۔اس دیس کی پاک مٹی پر ناپاک کام چھوڑ دو۔شراب و جواء جو کہ تم پر حرام ہیں۔انہیں اپنا کر اپنی عاقبت و صحت تباہ کررہے ہو۔اور اپنی زندگی کی ساعتوں کو ناکارہ کرنے میں مصروف ہو۔فحاشی و عریانی کا بازار اتناگرم ہوتا جارہا ہے کہ بسنت میلہ کی آڑ میں پاک وطن سے ٹیلی ویژن و ریڈیو بھی مختلف فحش انگیز پروگرام پیش کررہے ہیں۔جس اسلامی معاشرے میں عورت گھر کی زینت اور باپردہ ہونی چاہئے۔ٹی وی پر ننگے سر اور ننگے منہ فیشن میں لت پت اسلامی تعلیمات کامذاق اڑا رہی ہیں اور گانے باجے سن سنا رہی ہیں۔
آہ اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے امت پہ تیری آکے عجب وقت پڑا ہے
بسنت منانے والے کسی بھی شخص کے لیے یہ رسم یا کھیل کسی فائدہ کا باعث نہیں ہر سال سینکڑوں جانیں ضائع ہورہی ہیں کیا آپ سب اس بات سے باخبر ہیں؟؟کیا کسی نے جان سے بچ جانے کا سر ٹیفکیٹ لے رکھا ہے آج قانون کی نظر میں بھی بسنت کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے تو کیا اگر یہ مذہب سے علیحدہ ہے تو اسی پر اصرار ضروری ہے؟اور یقیناً جو بات مذہب سے لاتعلق ہونے کی دلیل ہے۔وہ دوسروں کو بھی مذہب سے قطع تعلق ہونے پر مجبور کررہی ہے۔آئو اس نافرمانی سے باز آنے کا اعلان کریں۔یہ جان و ایمان کا دشمن کام ہونے کے ساتھ ساتھ ملک کی بے شمار چیزوں کے لیے نقصان دہ ہے۔وہ ڈور جو کٹنے کے بعد زمین کی طرف لپکتی ہے راہ گیروں کی گردن پرپھر جاتی ہے جس سے ایک جان ضائع ہوجاتی ہے اور ارشاد العالمین ہے”کہ جو کسی کو ناحق قتل کرے اس کی سزا جنہم ہے۔”اسی طرح واپڈا کے بے شمار ٹرانسفارمر اور تاروں کو نقصان پہنچتا ہے جس سے بجلی بند ہوجاتی ہے نہ جانے کتنے گھروں میں بعض افراد بیمار یا ہسپتال میں پڑے ہوتے ہیں یہ ملکی ترقی میں معاون کاموں اور فیکٹریوں میں ہوتے ہیں جہاں بجلی نہیں جانی چاہئے مگر آہ ہمیں خود غرضی نے ماردیا۔ہم اجتماعی سوچ نہیں رکھتے اور اپنی ایک خواہش پر ہزاروں افراد کی سہولت و آسائش تباہ کردیتے ہیں۔