مصر میں سولہ امریکیوں سمیت تینتالیس جمہوریت پسند کارکنوں کے خلاف عدالتی کارروائی شروع ہوچکی ہے۔ان افراد پر الزام ہے کہ وہ امریکہ سمیت بیرونِ ممالک سے غیرقانونی امداد وصول کررہے تھے۔ان گرفتاریوں کے باعث مصر اور امریکہ میں تعلقات انتہائی کشیدہ ہوچکے ہیں جبکہ مصر کو یہ دھمکی بھی مل چکی ہے کہ اس کی مالی امداد بند کی جاسکتی ہے۔امریکی وزیرِ خارجہ ہلری کلنٹن نے ذرائع کو بتایا کہ اس معاملے پر مصر کے ساتھ بہت زیادہ بات چیت جاری ہے۔ہم مصر کے موجودہ حکام سے بہت ہی اعلی سطح پر بات کررہے ہیں اور ہمیں امید ہے کہ یہ مسئلہ حل کرلیا جائے گا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سماعت کے موقع پر کمر عدالت صحافیوں سے بھرا ہوا تھا جہاں ملزمان کے ناموں کی لمبی فہرست اور ان پر لگائے گئے الزامات پڑھ کر سنائے گئے۔ سماعت کے موقع پر تمام تینتالیس ملزمان پیش نہیں ہوئے تھے جبکہ عدالتی کارروائی کو چھبیس اپریل تک کے لیے ملتوی کردیا گیا۔اگرچہ سماعت کے دوران کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا، استغاثہ کے ایک رکن نے ملزمان کے لیے زیادہ سے زیادہ سزا تجویز کی جبکہ ایک اور رکن نے کہا کہ انہیں مصر کی مذہبی شخصیت عمر عبدالرحمان کے بدلے رہا کرنے پر غور کیا جائے۔ عمر عبدالرحمان امریکہ کی جیل میں قید ہیں کیونکہ انہیں نیویارک میں بم حملوں کی منصوبہ بندی کرنے کی سازش میں ملوث پایا گیا تھا اور انہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
چند امریکی شہریوں نے مصر چھوڑنے کی اجازت نہ ملنے کے بعد مصر میں موجود امریکی سفارتخانے میں پناہ لے لی ہے۔سفری پابندی لگنے سے پہلے چند ملزمان ملک سے جاچکے تھے جبکہ گرفتار ملزمان میں مصر، جرمنی، فلسطین، ناروے اور سربیا کے شہری بھی شامل ہیں۔انسانی حقوق کی تنظیموں نے مصر کے حکام کی جانب سے کی جانے والی تحقیقات پر کڑی تنقید کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مصر کی حکمراں فوجی سپریم کونسل کے خلاف آواز کو دبانے کے لیے اِن افراد پر الزامات تھوپے گئے ہیں۔ مصر کے اس اقدام پر امریکہ چراغ پا ہے اور اس نے مصر کو ایک ارب پچاس کروڑ ڈالر کی سالانہ امداد روکنے کی بھی دھمکی دی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مصر کے اس اقدام نے مقامی لوگوں کے دل جیت لیے ہیں جس سے حکمراں فوجی سپریم کونسل پر دبا ؤ میں کچھ کمی واقع ہوئی ہے اور اب یہ آنے والے مہینوں میں اقتدار سویلین افراد کو حوالے کرنے کی طرف جا رہی ہے۔مصر کے ایک وزیر کا کہنا ہے کہ یہ گروپ ملک میں انتشار پھیلانے کی کوشش کررہا تھا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سابق صدر حسنی مبارک کے اقتدار کے خاتمے کے بعد سے سینکڑوں غیر سرکاری ادارے بھی حکومتی تحقیقات کی زد میں آچکے ہیں۔