تنگ آ چکے ہیں کشمکش زنگی سے ہم ٹھکرا نہ دیں جہاں کو کہیں بے دلی سے ہم مایوسئی مال محبت نہ پوچھیے! اپنوں سے پیش آئے ہیں بیگانگی سے ہم لو آج ہم نے توڑ دیا رشتہ امید لو اب کبھی گلا نہ کرینگے کسی سے ہم ابھریں گے ایک بار ابھی دل کے ولولے گو دب گئے ہیں بارِ غم زندگی سے ہم گر زندگی میں مل گئے پھر اتفاق سے پوچھیں گے اپنا حال تری بے بسی سے ہم اللہ رے فریب مشیت کہ آج تک دنیا کے ظلم سہتے رہے خامشی کیساتھ ساحر لدھیانوی