اسلام آباد : (جیو ڈیسک) میمو کمیشن کے مرکزی کردار منصور اعجاز نے ایبٹ آپریشن سے پاکستانی حکام کے باخبرہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے مبینہ فوجی بغاوت سے متعلق دستاویزات تحقیقاتی کمیشن کے حوالے کر دیں۔ اسلام آباد میں جسٹس قاضی فائزکی زیرصدارت میمو کمیشن کے اجلاس میں لندن سے ویڈیولنک پر وکلا کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے منصور اعجاز نے کہا کہ حسین حقانی نے ان سے کہا کہ تھا کہ ایبٹ آباد آپریشن کے بعد پاکستان میں فوجی بغاوت ہو سکتی ہے، دستاویزات سے حسین حقانی کے خدشے کی تصدیق ہو گئی، انہوں نے کہا کہ کہا انہوں نے تین چارممالک کے انٹیلی جنس ذرائع سے فوجی بغاوت کے امکان کی تصدیق کرنے کی کوشش کی، جسٹس فائز عیسی نے منصور اعجاز سے سوال کیاکہ ان کے پاس دستاویزات کہاں سے آئیں، جواب میں منصور اعجاز کا کہنا تھاکہ جتنا مرضی دباؤ وہ یہ نہیں بتائیں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ دستاویزات میں امریکی فوجی سربراہ، پاکستان کے صدر اور آرمی چیف کے درمیان ہونے والی گفتگو کا متن بھی موجود ہے، بیان کے دوران ایک موقعے پر منصور اعجاز نے یوٹران لیتے ہوئے کہا کہ حسین حقانی نے انہیں کوئی دھمکی نہیں دی بلکہ پاکستان نہ آنے کیلئے دباؤ ڈالا، انہیں اردو، انگریزی اور عربی زبان میں ایس ایم ایس بھیجے گئے جن کا انہوں نے ایف بی آئی کے ذریعے ترجمہ کرایا، انہوں نے مزید کہا کہ میمو کے معاملے میں انہیں سی آئی اے کے سابق حکام نے ہراساں کیا جن میں بروس ریڈل اور کرسٹین بھی شامل ہیں، منصور اعجاز نے کہا ہے کہ حسین حقانی پہلے بھی دوست تھے اب ہیں، مصطفے رمدے ایڈووکیٹ کے سوال پر منصور اعجاز نے کہا کہ ان کی صدرآصف زرداری سے امریکا میں دوبار ملاقات ہوئی، پہلی ملاقات انیس پچانوے اور دوسری دو ہزار نو میں ہوئی، حسین حقانی نے مئی دو ہزار گیارہ میں صدر سے تیسری ملاقات کی پیشکش کی، اس موقعے پر منصور اعجاز نے صدر ملاقات کی پیشکش کا ریکارڈ لندن میں ساتھ موجود سیکرٹری کمیشن کے حوالے کیا، جواب جاری رکھتے ہوئے منصور اعجاز نے کہا کہ دو ہزار نو میں صدر آصف زرداری سے ان کی ملاقات دو صفحات پر مشتمل ایجنڈے کے ساتھ ہوئی،یہ ایجنڈا انہوں نے ملاقات سے قبل حسین حقانی کو دیا تھا۔
منصور اعجاز نے وضاحت کی کہ یہ ایجنڈا پاک امریکا تعلقات سے متعلق تھا، ایک سوال پران کا کہنا تھا کہ وہ امریکی شہری ہیں کسی کے ایجنٹ نہیں ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ حسین حقانی پہلے بھی ان کے دوست تھے اب بھی ہیں، ان سے دس برس سے جان پہچان ہے، ان سے تراسی مرتبہ ای میل پر رابطہ ہوا، کمیشن نے ای میلزکا ریکارڈ پیش کرنے کی ہدایت کی، منصور اعجاز نے کہا کہ وہ ان لاکھوں پاکستانی امریکیوں میں سے ایک ہیں جو پاکستان اورامریکا میں بہتری چاہتے ہیں۔ منصور اعجاز نے کہا کہ انہوں نے کہاکسی دباؤ کے تحت سپریم کورٹ میں بیان داخل نہیں کیا اور نہ ہی انہوں نے میمو کے معاملے سے کچھ حاصل کیا ہے، انہوں نے کہا کہ وہ اس بیان پرقائم ہیں حسین حقانی سے ٹیلی فون پر میمو کے معاملے پر جو گفتگو ہوئی، وہی انہوں نے تحریرکی، ان کا کہنا تھا کہ آئی ایس آئی کے ڈائریکٹرجنرل لیفٹیننٹ جنرل احمد شجاع پاشا سے ان کی ملاقات ہوئی جو چار گھنٹے جاری رہی۔
منصور اعجاز نے کمیشن کو تجویز دی کہ ان کی الیکٹرک ڈیوائسز کا لندن میں فرانزیک لیبارٹری سے ٹیسٹ کروایا جائے جس پر کمیشن کے سربراہ نے کہا کہ اس پر کل فیصلہ کیا جائے گا، بعد ازاں کمیشن کا اجلاس جمعہ کی دوپہر دو بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔