اسلام آباد : (جیو ڈیسک) سپریم کورٹ نے نئی انتخابی فہرستوں کی تیاری میں تاخیر سے متعلق الیکشن کمیشن کی وضاحت مسترد کر دی، اٹارنی جنرل کو تاریخوں سمیت تمام ریکارڈ پیش کرنے کیلئے چودہ مارچ تک کی مہلت دی گئی ہے، عدالت نے سیکریٹری الیکشن کمیشن کی جانب سے وزیر اعظم کے نام خط کی خبر کا نوٹس بھی لے لیا۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے بوگس ووٹوں سے پاک انتخابی فہرستوں کی تیاری سے متعلق کیس کی سماعت کی۔
عدالت نے سیکریٹری الیکشن کمیشن کی طرف سے وزیر اعظم کے نام خط سے متعلق خبر کا نوٹس لیتے ہوئے کہا کہ خط میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ سپریم کورٹ الیکشن کمیشن کے معاملات میں مداخلت کر رہی ہے، جسٹس خلجی عارف حسین نے ریمارکس دیئے کہ عدالت کسی بھی ادارے کے کام میں مداخلت نہیں کرنا چاہتی۔ چیف جسٹس نے سکریٹری الیکشن کمیشن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بتائیں عدالت نے کب غلط کام کرنے کو کہا۔
چیف جسٹس نے سیکریٹری الیکشن کمیشن کو خط کی نقل سپریم کورٹ میں پیش کرنے کی ہدایت کی اور کہا کہ ادارے کا وقار مجروح نہیں ہونے دیا جائے گا ، اگر ثابت ہوا کہ آپ نے عدالت کا وقار مجروح کیا ہے تو کارروائی ہو گی۔ اس سے قبل الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابی فہرستوں کی تیاری میں تاخیر سے متعلق نوٹس کا جواب سپریم کورٹ میں جمع کرایا گیا، جواب میں وضاحت کی گئی ہے کمیشن کو عدالتی حکم کا علم نہیں تھا ،الیکشن کمیشن کے ارکان کا تقرر تیرہ جون دو ہزار گیارہ کو ہوا، الیکشن حکام چار جولائی دو ہزار گیارہ کے حکم سے لاعلم تھے، تئیس فروری کی ڈیڈ لائن سے متعلق دسمبر دو ہزار گیارہ میں آگاہ کیا گیا۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ لگتا ہے سیکریٹری الیکشن کمیشن نے سب کو اندھیرے میں رکھا، سمجھ نہیں آتا سابق سیکریٹری نے الیکشن کمشنر کے دستخط کیسے کئے۔
انہوں نے کہاکہ ووٹر لسٹوں کی سالانہ تیاری الیکشن کمیشن کی آئینی ذمہ داری ہے ، حکومت انتخابات کرانا چاہے تو فہرستیں دستیاب نہیں ہوں گی۔ آئین کو پامال کرنے کا طرز عمل برداشت نہیں کیا جائے گا۔ الیکشن کمیشن کے سیکریٹری اور ارکان کے جواب میں تضاد ہے ، یہ مقدمہ انتہائی اہم ہے جسے میرٹ پر نمٹانا ہے۔ اٹارنی جنرل نے مہلت طلب کرتے ہوئے کہا کہ وہ تاریخوں کے ساتھ تمام ریکارڈ پیش کر دیں گے جس پر سپریم کورٹ نے انہیں مہلت دیتے ہوئے سماعت چودہ مارچ تک ملتوی کر دی۔