بھارت:(جیو ڈیسک) کانگریس پارٹی کی صدر سونیا گاندھی نے اسمبلی انتخابات میں نقصان کو تسلیم کیا ہے لیکن ان کا کہنا ہے کہ نتائج سے مرکز میں منموہن سنگھ کی قیادت والی یو پی اے حکومت پر کوئی اثر نہیں پڑیگا۔ اسمبلی انتخابات میں خراب کارکردگی پر غور و فکر کے لیے محترمہ گاندھی نے بدھ کی صبح دلی میں پارٹی کے جنرل سیکریٹریوں کی میٹنگ طلب کی طلب کی تھی۔ میٹنگ کے بعد کانگریس کے صدر دفتر میں نامہ نگاروں کے ساتھ بات چیت میں سونیا گاندھی نے کہا کہ ” ہمارے لیے ہر انتخاب ایک سبق ہے چاہے جیتیں یا ہاریں، نتائج پرغور و فکر ہوگا اور پھر ہم غلطیوں کو درست کرنے کی کوشش کریں گے۔” انہوں نے کہا کہ انتخابات میں شکست اور کامیابی ملتی رہتی ہے، اسے ذاتی طور پر نہیں لینا چاہیے۔” مجھے نہیں لگتا کہ اسبملی انتخابات کے نتائج سے یو پی اے کی حکومت کو نقصان پہنچیگا۔” یو پی میں شکست کے متعلق محترمہ گاندھی کا کہنا تھا ” ہار کی ایک نہیں بہت سی وجوہات ہیں، امیدواروں کا انتخاب بھی ان میں سے ایک ہے۔ ہمارے امید وارں سے لوگ خوش نہیں تھے۔” انہوں نے کہا کہ یو پی میں کانگریس پارٹی بطور ایک تنظیم بہت کمزور ہے۔ ” عوام بہوجن سماج پارٹی کی حکومت سے سخت ناراض تھی اور اس نے متبادل کے طور پر سماج وادی پارٹی کو منتخب کیا ہے۔”
سونیا گاندھی نے یہ بات تسلیم کی کہ ریاست پنجاب میں پارٹی کی شکست ایک بڑا دھچکا ہے۔ ” پنجاب میں ہمیں زیادہ امید تھی لیکن وہاں کی علاقائی جماعت پی پی نے اکالی سے زیادہ کانگریس کو نقصان پہنچایا۔” انہوں نے کہا کہ گوا میں لوگ کانگریس سے خوش نہیں تھے اس لیے پارٹی کے خلاف ووٹ کیا۔ سوالات کے جواب میں محترمہ گاندھی نے اعتراف کیا کہ بعض کوتاہیاں ہوئی ہیں اور آئندہ آنے والی ریاستوں کے انتخابات سے قبل انہیں درست کر لیا جائیگا۔ ادھر ریاست اترپردیش کی وزیراعلی مایاوتی نے اپنے عہدے سے استعفی دیدیا ہے۔ انہیں ریاست میں شکست فاش ہوئی ہے۔ اپنی شکست کے بعد پہلی بار بدھ کو لکھن میں ایک نیوز کانفرنس میں انہوں نے اپنی ہار کے لیے کانگریس، بی جے پی اور مسلمانوں کو ذمہ دار بتایا۔ انہوں نے کہا کہ کانگریس نے انتخابات سے عین قبل مسلمانوں کے لیے ریزرویشن کا اعلان کر دیا جس کی بی جے پی نے سخت مخالفت کی۔ ”ایسے ماحول میں مسلم سماج کو یہ خوف تھا کہ شاید بی جے پی اقتدار میں آجائیگی۔ چونکہ کانگریس کمزور تھی اس لیے مسلمانوں نے کانگریس کے بجائے ایس پی کو ووٹ دیا۔”
مایاوتی کا کہنا ہے کہ مسلم سماج کو یہ لگا کہ اعلی طبقے کے ہندو بی ایس پی کو ووٹ نہیں دیں گے اس لیے ” ستر فیصد مسلم ووٹ ایس کی طرف چلا گیا۔” لیکن مایا وتی نے یہ بھی دعوی کیا کہ ان انتخابات میں ان کا روایتی دلت ووٹ کہیں نہیں گیا اور وہ اب بھی ان کی جماعت کے ساتھ ہے۔