بلوچوں کی نفسیات بیان کرتے ہوئے انگریز لکھاری ”اولف کیرو”رقمطراز ہے”ان سے کام لینے کا صرف ایک طریقہ ہے آپ انہیں عزت دیں”۔لیکن ہمارے امراء نے ہمیشہ اسکے برعکس کام کیا۔1958میں پہلامارشل لاء لگا حکومت نے خان آف قلات کو گرفتار کیا’پھر بھٹودور حکومت میں چار سال بلوچوں کے خلاف آپریشن جاری رہا’مگر بلوچوں کا سر خم نہ کیا جا سکا حتی کہ ضیاء الحق شہیدکا دور آیا تو آرمی واپس بلالی گئی تب جا کر امن وامان کی صورتحال بہترہوئی اور بلوچ پہاڑوں سے اتر آئے۔اس کے بعد مسلمانوں کے خون سے نہانے والے جنرل نے بلوچستان پر چڑھائی کردی اور نواب اکبربگٹی کو شہید کردیا گیا اور وہ دن ہے اور آج کا دن ہے کہ بلوچ اپنے اندر انتقام کی آگ لیئے پھرتے ہیں ۔بلوچوں کا شاعر با لاچھ اپنے شعر میں کہتاہے”بلوچ دشمن سے اسوقت صلح کرسکتا ہے جب ہاتھوں کی ہتھیلیوں پر بال اُگ آئیں ‘چڑیاں دودھ دیںیا پھر’سانپوں کے پائوں نکل آئیں”(یہ اس مخصو ص صورتحال کی جانب اشارہ ہے جب بلوچوں کو نیچا دکھانے کی سعی ناکام کی جا رہی ہو یا بلوچوں کا کوئی بڑا نقصان ہواہوجس کی تلافی ناممکن ہو)۔اپنے ایک اور شعر میں کہتا ہے۔
یہ شعر بچپن میں پڑھا تھا ‘جسطرح یاد تھا لکھ دیاغالبا اس کا ترجمہ کچھ اسطرح ہے کہ بلوچ اگر بدلا نہیں لے رہاتواس کا مطلب ہے وہ کم سن ہے یا کمزور ‘مگر بدلہ ضرور لے گااگرچہ جتناوقت لگ جائے”۔جب تک اکبر بگٹی کے قاتلوں کو سزا نہیں دے دی جاتی ‘بلوچ عوام میں اگر ہیرے جواہرات بھی تقسیم کردیئے جائیں تو بھی امن آنا مشکل ہوگا ‘آگ کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی صورت میں بھڑکتی رہے گی اور ایسی صورتحال میں ایسے عناصر جو جلتی پر تیل کا کام کرتے ہیں فائدہ اُٹھائیں گے۔میں یہ نہیں سمجھتاکہ مسلم ممالک کو تقسیم کرنے کے حوالے سے رالف پیٹر کے بدنام زمانہ نقشے کامیاب ہوں گے مگر شورش بددستور قائم رہے گی اور یہ بات قومی مفاد کے منافی ہونے کے ساتھ ساتھ صوبے کے مسلم بھائیوں سے زیادتی ہے خواہ وہ کسی بھی قبیلہ ‘قوم یازبان سے تعلق رکھتے ہوں کیونکہ چمن میں جب آگ لگتی ہے تو پھول بھی جلتاہے ‘کانٹے بھی اور مالی بھی ۔ اسکے علاوہ بھی بلوچستان میں محرومیوں کا راج ہے۔بلوچستان سے نکلنے والی گیس جس نے پورے ملک کی ایندھن اور توانائی کی ضرورتوں کو پوراکیا خودبلوچستان اس سے 32سال محروم رہا۔1986میں کوئٹہ کے باسیوں کو گیس سے نوازا گیایعنی دریافت کے تین عشروں بعد۔اور اب بھی پاکستان کے اس صوبے کا 78فیصد حصہ گیس سے محروم ہے۔دی نیوز میں 21فروری 2012کو شائع ہونے والی رپورٹ میں کہاگیاہے کہ ”بلوچستان کے ہر دو باشندوں میں سے ایک کی پانی تک رسائی نہیں ‘ہر دو میں سے ایک بچہ کو پرائمری سکول کی ہوا تک نے نہیں چھوا’ہر تین میں سے ایک بچے کو حفاظتی ٹیکے لگائے جاتے ہیں۔ہر دو میں سے ایک خط غربت کے نیچے زندگی گزار رہا ہے۔
شرح خواندگی پاکستان میں پچاس فیصد ہے۔جبکہ بلوچستان میں مردوں میں 23فیصد اور خواتین میں یہ شرح سات فیصد کے قریب ہے۔صوبہ میں اب تک پبلک اکائونٹس کمیٹی قائم نہیں کی گئی۔ہر صوبائی اسمبلی کے ممبر کو 25کروڑ روپے سالانہ دیئے جاتے ہیں مگر چار سو ویرانی کا راج ہے۔ستر فیصد سکول بند ہیں ۔۔پاکستان کے اس سب سے بڑے صوبے میں کل معالجوں(ڈاکٹروں) کی تعدادمحض 10,564ہے۔صوبے میں موجودایف ۔سی کے کل عملے کی تعداد کم وبیش پچاس ہزار ہے’پولیس ہے’وزیر اعلی ہے ’65ارکان اسمبلی ہیں جن میں سے 58وزیرومشیرہیں’قانون بھی ہے مگر عمل۔۔۔صرف 2011ء کے سرکاری اعدادوشمار کے مطابق انتہاپسندی کے 10,476واقعات ہوئے ۔291افراد اغواء ہوئے۔محض بارہ ماہ کے دوران ایک ہزار سے زائد انسانوں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔پچھلے چند سالوں میں لاپتہ افراد کی 270مسخ شدہ لاشیں بے گوروکفن ملی ہیں۔
فرقہ وارانہ بنیاد پر بھی خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے۔اور پنجابی ‘پشتون اور دیگر صوبوں کے آباد کاروں کو بھی بے جرم سزا دی جارہی ہے۔اگر یہ مان لیاجائے یہ سب کچھ غیر ملکی شہ پر ہورہاہے تو پھر اسے بے نقاب کس نے کرناہے’ریاست کے باشندوں کی حفاظت کس کی ذمہ داری ہے؟محض دعوئوں سے کچھ نہیں ہو تا’ثبوتوں اور گواہوں کے ساتھ آخر یہ کس نے ثابت کرناہے کہ ملکی ایجنسیاں بے گناہ ہیں؟اُن تمام ہاتھوں کو جو بے گناہ انسانوں کے قاتل ہیں تختہ دار تک کون اور کب پہنچائے گا؟ایک حلقے کا کہناہے کہ بلوچستان کے 70سردار اپنی دولت میں سے غریب عوام پر خرچ کیوں نہیں کرتے ؟ تو دوسرا حلقہ کہتاہے کہ حکومت کی بھی تو جیب میں ان مظلوموں کا حصہ ہے وہ کہاں جائے گا لیکن جب تک سنجیدگی سے اس مسئلہ کا سیاسی ‘سماجی ومعاشی بنیادوں پر حل تلاش نہیں کیا جاتااسوقت تک حالات معمول پر نہیں آئیں گے۔اتنا کچھ ہونے کے باوجود ہم فقط زبانی جمع خرچ سے کام لے رہے ہیں۔
محض بیانات سے گرم خون ٹھنڈا نہیں کیاجاسکتا۔اگرحکمران سمجھتے ہیں روٹی کا مطالبہ امن میں خلل ڈالتاہے تو پھر بلوچ دہشت گرد ہیں۔اگر حکمران سمجھتے ہیں پانی مانگناجرم ہیں توپھر بلوچ دہشت گردہیں۔ اگر بااختیار لوگ سمجھتے ہیں اپنی زمین کی آمدنی خود طلب کرناآئین کی خلاف ورزی ہے تو پھر بلوچ دہشت گرد ہیں۔اگر مسند اقتدار پر فائز انسان یہ سمجھتے ہیں اپنے تڑپتے ہوئے مریضوں کیلئے دوامانگنا اور بچوں کیلئے تعلیم مانگناگناہ کبیرہ ہے توپھر بلوچ دہشت گردہیں۔اگر ارباب اقتدار سمجھتے ہیں قصاص مانگنا(اکبر بگٹی شہید کے قاتلوںسے )بغاوت کرنے کے مترادف ہے تو پھرمیرا یقین کیجئے بلوچ دہشت گردہیںاوراُس لمحے تک دہشت گرد رہیں گے جب تک کے ان کے مطالبات من وعن تسلیم نہ کیئے گئے ۔تحریر : سمیع اللہ خان