دُنیا میں جو لوگ امریکا کے ساتھ نہیں ہیں انہیں دہشت گرد سمجھا جائیگا۔ یہ الفاظ موجودہ صلیبی جنگ کے بانی سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کے ہیں جو اُنہوں نے نائن الیون واقعہ کے فوری بعد کہے تھے۔ اسی اُصول پر عمل کرتے ہوئے سی آئی اے اور موساد ٹارگٹ ممالک میں نہ صرف جاسوسی کرتے ہیں بلکہ ایسے افراد کو نشانہ بھی بناتے ہیں جو امریکی اور اسرائیلی مفادات کیخلاف کام کر رہے ہوں۔ محمد احمد کاظمی بھی ایک ایسے ہی صحافی ہیں جو ایران اسرائیل دشمنی کی بھیٹ چڑھ گئے۔ اُردو صحافت میں اس سینئر صحافی کا قصور صرف اتنا ہے کہ وہ بھارتی دارالحکومت میں رہ کر ایران ریڈیو اور ایران کی خبر رساں ایجنسی کیلئے کام کرتے ہیں جبکہ اکثر اوقات امریکا اور اسرائیل مخالف مضامین بھی لکھتے ہیں جو پاکستان اور بھارت کے اُردو اخبارات میں شائع ہوتے ہیں۔ محمد احمد کاظمی بھارت کے سرکاری ٹی وی دور درشن پر اُردو خبریں بھی پڑھتے رہے اور کوریج کیلئے پارلیمنٹ بھی جاتے رہے۔ وہ پریس انفارمیشن بیورو (پی آئی بی) کے تسلیم شدہ صحافی ہیں۔ بھارت میں پریس انفارمیشن بیورو (پی آئی بی) کا وہی کام ہے جو پاکستان میں پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ (پی آئی ڈی) ادا کر رہا ہے۔
پریس انفارمیشن بیورو (پی آئی بی) سے تسلیم شدہ ہونے کا ایک پیچیدہ عمل ہے۔کسی بھی صحافی کو تسلیم کرنے سے قبل پی آئی بی خفیہ ایجنسیوں سے باقاعدہ اس کی تحقیقات کراتی ہے اور پھر انہیں پارلیمنٹ کی کوریج کیلئے اجازت نامہ ملتا ہے جبکہ ایسے صحافیوں کی خفیہ تحقیقات کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہتا ہے۔ امریکی خفیہ ایجنسی ایف بی آئی اور اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد نے محمد احمد کاظمی کو اس الزام میں گرفتار کیا ہے کہ وہ اسرائیلی سفارتخانے کی کار پر ہونے والے حملے میں ملوث ہے جبکہ بھارتی میڈیا کے مطابق یہ سازش خود اسرائیلی خفیہ ایجنسی کی تیار کردہ تھی اور اسکا مقصد ایران پر سازش کا الزام لگا کر نہ صرف دونوں ملکوں کے تعلقات خراب کرنا تھا بلکہ اس طرح بھارت کو یہ پیغام بھی دینا تھا کہ وہ ہر سطح پر ایران کی حمایت ترک کرکے امریکا اور اسرائیل کے مؤقف کی تائید کرے جبکہ بھارتی عوام میں بھی یہ بات گھر کر گئی ہے کہ ایران کیخلاف ماحول بنانے کیلئے خود اسرائیل نے ہی اپنی ایک گاڑی پر اسٹک بم سے حملہ کیا اور پھر اس سازش کا الزام ایران پر لگانے کیلئے اس صحافی کو مہرہ بنایا گیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کاظمی اگر واقعی کسی دہشت گرد تنظیم کیلئے کام کرتے تھے تو پھر بھارت کی خفیہ ایجنسیوں کو اس کی بھنک کیوں نہ پڑی۔ قرائن و شواہد بھی یہ ثابت کرتے ہیں کہ محمد احمد کاظمی جیسے پیشہ ور صحافی کو جان بوجھ کر ایک ایسے کیس میں پھنسایا گیا جو بذات خود مشکوک ہے۔
اسرائیل کی بھارت کیخلاف اس سازش سے ثابت ہوا کہ کوئی ملک کسی کا دوست نہیں ہوتا بلکہ ہر ایک کی دوستی مفادات پر مبنی ہوتی ہے۔ یہ مفادات جہاں دوستی میں رخنہ ڈال دیتے ہیں وہیں دشمنوں کو قریب بھی کر دیتے ہیں۔ بھارت جہاں امریکا اور اسرائیل کے انتہائی قریب ہے وہیں ایران کے ساتھ بھی بہتر تعلقات رکھتا ہے۔ اسرائیل نے جہاں اس سازش کے ذریعے بھارت کو ایران کا مخالف کرنے کی کوشش کی وہیں پاکستان کے ضلع کوہستان میں شیعہ مسافروں کی بس پر فائرنگ کرکے پاکستان اور ایران کے تعلقات میں بھی دراڑیں ڈالنے کی ناپاک جسارت کی گئی کیونکہ پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ امریکا اور اسرائیل کیلئے ناقابلِ قبول ہے جبکہ حال ہی میں پاکستان، ایران اور افغانستان کے سہ فریقی اجلاس سے بھی دونوں ممالک کو مروڑ اُٹھنا شروع ہو گئے ہیں۔ ایران اور امریکا کے تعلقات 1980ء میں ٹوٹے اور آج تک بحال نہیں ہوئے جبکہ 1979ء میں انقلاب کے بعد سے ایران کا یہ مؤقف رہا ہے کہ اسرائیل کا وجود غیر قانونی ہے۔ ایران اب بھی اسرائیل کی پُرجوش مخالفت پر قائم ہے، یہی وجہ ہے کہ اس وقت ایران مغربی طاقتوں کی جانب سے جوہری پروگرام، مبینہ دہشت گردی، مشرق وسطیٰ کے امن کو خراب کرنے کے خواہشمند گروہوں کی مبینہ سرپرستی اور دیگر الزامات کا نشانہ بنا ہوا ہے۔
امریکا کی ایماء پر مغربی ملکوں کی جانب سے ایران پر اقتصادی پابندیاں عائد ہیں لیکن بھارت ان پابندیوں کیخلاف ہے۔ وہ ایران سے بڑی مقدار میں تیل خرید رہا ہے جبکہ امریکا کو یہ گوارا نہیں کہ بھارت اُسکے دشمنوں سے کوئی تجارت کرے۔ اسکے علاوہ پاکستان اور ایران بھی ایک دوسرے کے قریب آ چکے ہیں اور امریکی مخالفت کے باوجود گیس پائپ لائن منصوبے کو عملی جامہ پہنانا چاہتے ہیں۔ امریکا اور اسرائیل اس کوشش میں ہیں کہ ایران کو ہر طرف سے نہتا کرکے اس پر حملہ کیا جائے لیکن فی الحال اس راستے میں رکاوٹیں موجود ہیں۔ ایران کے مسئلے پر چین اور روس بھی امریکا کے راستے میں بہت بڑی رکاوٹ ہیں اور یہ طرز عمل امریکا اور اسرائیل کو کسی طور گوارا نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سی آئی اے اور موساد ایران کے پڑوسی ممالک میں مختلف قسم کی سازشوں میں مصروف ہیں تاکہ ان پڑوسی ممالک کے آپس میں تعلقات خوشگوار نہ رہ سکیں۔ یہ بات بھی اب کھل کر سامنے آ گئی ہے کہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد انتہاپسند تنظیم جنداللہ کی مدد کرتی ہے اور یہ انکشاف امریکا کا مؤقر جریدہ فارن پالیسی بھی کر چکا ہے۔ امریکا اور اسرائیل جنداللہ کے ذریعے پاک ایران تعلقات بھی خراب کرنے کی سازش کر رہے ہیں۔
محمد احمد کاظمی کی گرفتاری پر ہندوستان کی صحافتی برادری کیساتھ ساتھ سیاسی و مذہبی حلقوں کی جانب سے بھی بھرپور ردعمل سامنے آیا ہے۔ بھارت کے اُردو میڈیا نے اس گرفتاری کو اردو صحافت پر صیہونی یلغار سے تعبیر کیا ہے۔ اُردو صحافت سے وابستہ صحافی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ہندوستان کا مین اسٹریم میڈیا فلسطین کے معاملے میں پوری طرح اسرائیل کا ساتھ دیتا رہا ہے جبکہ اُردو میڈیا اسرائیل کے مظالم کو منظرعام پر لانے کیلئے کوشاں ہے۔ محمد احمد کاظمی کی ایف بی آئی اور موساد کے ذریعے گرفتاری پر بھارتی حکومت کو بھی شدید تنقید کا سامنا ہے۔ ایف بی آئی امریکا کا وفاقی تفتیشی پاسبان ادارہ ہے لیکن اس پر ایک الزام یہ بھی ہے کہ یہ امریکا میں بسنے والے مسلمانوں کو ورغلا کر دہشت گردی کی منصوبہ بندی کرواتا ہے اور پھر انہیں گرفتار کرکے مسلمانوں کو مورد الزام ٹہراتا ہے جبکہ موساد اسرائیل کا خفیہ جاسوس ادارہ ہے۔ موساد کا پورا نام انسٹی ٹیوٹ فار انٹیلی جنس اینڈ اسپیشل سروسز ہے۔ یہ ایجنسی بہ ظاہر اپنے آپ کو سائنسی ادارہ کہتی ہے مگر یہ حیثیت صرف اس کی اصلیت چھپانے کیلئے ہے ورنہ اس کا اصل کام دشمن ممالک کو نقصان پہنچانا اور ان کی چھپی سرگرمیوں سے اپنی حکومت کو آگاہ کرنا ہے۔