ہم وہ صبح دیکھنے جا رہے ہیں کہ جب دنیا کے آزاد انسان فلسطینی پرچم تھامے اردن، مصر، لبنان، تیونس اور طرابلس میں نمودار ہوں گے۔ پہلے گلوبل مارچ ٹو یروشلم کے موقع پر کہا گیا فلسطینی رہنمااسماعیل حانیہ کا یہ تاریخی جملہ وقت کے بدلتے دھارے کی نشاندہی کررہا ہے،واقعی حالات بدل رہے ہیں، مظلوم فلسطینیوں کی قربانیاں رنگ لارہی ہیں، اسرائیلی جارحیت کے خلاف عالمی ضمیر بیدار ہورہا ہے اورآج دنیا کے کونے کونے سے فلسطینیوں کے حق میں بلند ہوتی ہوئی آوازیں ان کی تاریخ ساز جدوجہد کا اعتراف کررہی ہیں۔
فلسطینی ہر سال 30مارچ کو یوم الارض مناتے ہیں، وہ30مارچ 1976کوڈھائے جانے والے اس قیامت خیز واقعہ کی یاد تازہ کرتے ہیں جس میں اسرائیلی فوجی درندوں نے پرامن مظاہرین پر حملہ کرکے سینکڑوں افراد کو زخمی و شہید، ہزاروں کو پابند سلاسل اوربے شمار فلسطینیوں کو ان کی آبائی سرزمین سے زبردستی بے دخل کر دیا تھا،اس روح فرسا واقعے کی یاد تازہ کرنے کیلئے فلسطینی چاہے وہ غزہ کے باسی ہوں یا مغربی کنارے کے رہائشی،لبنان کے مہاجر ہوں یا شام میں بسنے والے، ہر سال آزادی کے اِن شہداکی یاد کو تازہ کرنے اور اسرائیلی ظلم وبربریت سے پردہ اٹھانے کیلئے یروشلم اور القدس کی سرحدوں پر جمع ہوتے ہیں اور اسرائیلی جارح افواج کے مظالم پر صدائے احتجاج بلند کرتے ہیں، لیکن گذشتہ سال سے اِس احتجاج میں اب عالمی برادری بھی شامل ہورہی ہے،گلوبل مارچ ٹو یروشلم اِسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
گذشتہ سال جب اِس مارچ کا تصور پیش کیا گیا تو اِس نظریئے کو دنیا بھر میں اِس قدر پذیرائی حاصل ہوئی کہ آج یہ نظریہ ایک تحریک کی صورت اختیار کر چکا ہے اور دنیا کے متعدد ممالک سے تعلق رکھنے والے مختلف اقوام و مذہب کے لوگ اِس کاروان میں جوق در جوق شامل ہو رہے ہیں، درحقیقت اِس مارچ کا اصل مقصد بھی یہی ہے کہ دنیا بھر کے باضمیر مسلمانوں، عیسائیوں، یہودیوں اور دیگر مذاہب کے لوگوں کو مجتمع کرکے عالمی ضمیر کو جگایا جائے اور اسے یہ باور کرایا جائے کہ کہ نسل پرست صہیونی ریاست کی یروشلم اور اس کے باسیوں کے خلاف اقدامات اور پالیسیاں فلسطینیوں کے ساتھ ساتھ انسانیت کے خلاف بھی سنگین جرائم ہیں، اِس لیے دنیا اسرائیل کی جانب سے یروشلم اور دیگر فلسطینی علاقوں پر قبضے اور عالمی قوانین کی پامالی کے خاتمے کی کوششوں میں فلسطینیوں کا ساتھ دے دراصل گلوبل مارچ ٹو یروشلم کے منتظمین اِس مارچ کے ذریعیفلسطینی تحریک مزاحمت کو ایک نیا رخ دینا چاہتے ہیں جس میں دنیا بھرکے لاکھوں مظاہرین بلا امتیاز رنگ و نسل اور مذہب ایک ایسی فلسطینی ریاست کے قیام کا مطالبہ کرتے نظر آئیں جس کا دارالحکومت یروشلم ہو۔
چنانچہ اِس مقصد کیلئے ہر سال 30مارچ کو فلسطین میں احتجاجی ریلیاں اور مارچ منعقد کئے جاتے ہیں تاکہ مسئلہ ارض فلسطین کی اہمیت کو اجاگر کیا جائے اور اِس دیرینہ مسئلے کا پائیدار حل تلاش کیا جا سکے، 30مارچ کو ہونے والے گلوبل مارچ ٹو یروشلم کا مقصد بھی یہی ہے کہ فلسطینی بھائیوں کو صہیونی ظلم و ستم سے نجات دلانے کیلئے پرامن احتجاج کیا جائے چنانچہ اِس سال پوری دنیا نے اِس مسئلے کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی اور ظالم و غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے مظالم کا پردہ فاش کرنے کیلئے دنیا بھر میں ریلیاں نکالنے اور مارچ کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اِس مقصد کیلئے عالمی مارچ برائے آزادی القدس میں دنیا بھر سے مختلف رنگ و نسل اور زبان ومذہب کے تقریبا 10 لاکھ افراد فلسطین کی آزادی کیلئے 30 مارچ کو مقبوضہ فلسطین کی چار سرحدوں مصر، لبنان، شام اور اردن کی جانب سے بیت المقدس کی جانب پر امن احتجاجی مارچ کریں گے، اِسی روز دنیا بھر میں امریکی و اسرائیلی سفارتخانوں کے سامنے بھی پرامن احتجاجی مظاہرے کئے جائیں گے۔
اِس مقصد کیلئے 15 ایشیائی ممالک کا پہلا قافلہ جس میں پاکستان، انڈیا، ایران، بحرین، ملائشیا، انڈونیشیا، بنگلہ دیش، تاجکستان، ازبکستان، ترکی، سعودی عرب، جاپان اور آسٹریلیا کی اہم سیاسی، سماجی اور مذہبی شخصیات شامل ہیں، بھارت سے روانہ ہوکر براستہ پاکستان، ایران، ترکی، اردن اور لبنان کی جانب روانہ ہو چکا، جبکہ دوسرا قافلہ جس میں مختلف ممالک بشمول امریکہ اور مشرق وسطی کے ممالک کے لوگوں کے نمائندہ وفودشامل ہیں، افریقہ سے اپنے سفر کا آغاز کرچکا ہے، اِسی قسم کے قافلے دیگر چار براعظموں سے یروشلم کی جانب رواں دواں ہیں، اِس مارچ کو امریکہ، برطانیہ، جرمنی، اٹلی کے علاوہ دیگر مغربی ممالک میں بھی خاصی پذیرائی ملی ہے، اطلاعات یہ بھی ہیں کہ یورپی ممالک سے ایک بہت بڑا قافلہ اردن کی جانب روانہ ہونے والا ہے، دوسری طرف برطانیہ کی انسانی حقوق کی تنظیم نے 30 مارچ کو اسرائیلی سفارت خانے کے سامنے مظاہرے کا اعلان بھی کیا ہے، جبکہ تنظیم آزادی فلسطین کے تحت قافلوں کے شرکاکا فلسطین پہنچنے پر شاندار خیر مقدم کیا جائے گا۔
دوسری طرف اسرائیل اِس پرامن قافلے کو روکنے کی کوشش میں مصروف ہے،اس نے بیت المقدس میں انفرادی حیثیت میں آنے کی ممانعت کرتے ہوئے 50 افراد کے وفد پر پابندی عائد کر رکھی ہے، صیہونی حکومت اِس مارچ سے اِس قدر خوفزدہ ہے کہ اس نے مارچ کے خلاف باقاعدہ کئی محاذ قائم کردیئے ہیں،جس میں سائبر وار سب سے اہم ہے، اسرائیلیوں نے مارچ ٹو یروشلم کے نام سے کئی ویب سائٹس بنائی ہیں جس کے ذریعے وہ دنیا کی گلوبل مارچ ٹو یروشلم سے بڑھتی ہوئی ہمدردی کو کم اور اِس سے منتفر کرنا چاہتا ہے، لیکن تمام تر اسرائیلی مخالفتوں اور اقدامات کے باوجود اِس وقت پاکستان سے روانہ ہونے والا گلوبل مارچ ٹو یروشلم کا پہلا قافلہ ایران کے شہر قم پہنچ چکا، جہاں سے اس کی اگلی منزل ترکی، اردن اور لبنان ہوگی،خیال رہے کہ گلوبل مارچ ٹو یروشلم میں شرکت کیلئے سب سے پہلا قافلہ10مارچ کوانڈیا سے روانہ ہوا تھا، جس میں بھارت کے علاوہ انڈونیشیا، ملائیشیا اور فلپائن کے سینکڑوں مندوبین شامل ہیں، یہ قافلہ واہگہ باڈر کے راستے لاہور سے ملتان ، سکھر او ر حیدرآباد ہوتا ہوا کراچی پہنچا تو اِس کا شاندار استقبال کیا گیا، اِس موقع پر پاکستان کی معروف سیاسی و مذہبی جماعتوں کے قائدین سمیت فلسطین سفیر ڈاکٹر ہازم ابو شناب بھی انہیں خوش آمدید کہنے والوں میں شامل تھے، کراچی سے اِس قافلے کے میں مختلف سیاسی،سماجی اور مذہبی جماعتوں کے وفود کے ساتھ جمعیت علمائے پاکستان کا بھی ایک آٹھ رکنی وفد علامہ سید عقیل انجم، قاضی احمد نورانی، حسنات احمد قادری اورطارق مغل کی قیادت میں14مارچ کو مزار قائد پر حاضری دینے کے بعد ایران روانہ ہو چکا ہے۔
ایران روانگی سے قبل فلسطین فانڈیشن پاکستان کی دعوت پر پاکستان میں فلسطینی سفیر ڈاکٹر ہازم ابو شناب نے ایشیائی ممالک کے مندوبین برائے گلوبل مارچ ٹو یروشلم کے شرکاسے خصوصی ملاقات کی، اِس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ میرے خاندان کی چار نسلیں فلسطین سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوئی ہیں ، ہم آج تک بے وطن ہیں، لیکن ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے اپنے وطن میں رہ پائیں نہ کہ مہاجرین کی زندگی گزاریں، ان کا کہنا تھا کہ گلوبل مارچ ٹو یروشلم کی کوشش ایک ایسی نوبل تحریک ہے جس کے بعد امید ہے کہ فلسطین بہت جلد غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے قبضے سے آزاد ہو جائے گا، انہوں نے اِس عزم کا بھی اعادہ کیا کہ فلسطینی کسی صورت اسرائیل جیسی غیر قانونی اور غاصب ریاست کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کریں گے، اِس موقع پر انہوں نے فلسطین فانڈیشن پاکستان کی جانب سے فلسطینی عوام سے اظہار یکجہتی کیلئے کی جانے والی کوششوں کو بھی زبر دست خراج تحسین پیش کیا۔
قارئین محترم !آپ جانتے ہیں کہ فلسطینی سر زمین1948سے اسرائیلی قبضہ میں ہے جبکہ بیت المقدس 1967 سے اسرائیلی شکنجہ جکڑا ہوا ہے، جبکہ عالمی استعمار امریکہ اسرائیل کی پشت پناہی میں مصروف ہے جب بھی یہ معاملہ اقوام متحدہ میں اٹھایا جاتا ہے، اسرائیلی سرپرست امریکہ ویٹو کر کے دبادیتا ہے، امریکی حمایت نے فلسطینیوں کا خون، زمین، عزت و آبرو اور مستقبل صیہونی بھیڑیوں کیلئے حلال قرار دی ہے، جس کی وجہ سے آئے روز انسانی تذلیل کا تماشہ لبنان، اردن اور فلسطین میں صابرہ، شتیلہ اور غزہ کی صورت میں دہرایا جاتا ہے اسرائیلی فوج اور انتظامیہ کھلے عام بین الاقوامی قوانین کو پامالی کرتی ہے، مگر کوئی اسے لگام دینے والا نہیں تھا، کوئی اس کے ہاتھ روکنے والا نہیں، لہذا ضرورت اِس امر کی ہے کہ دنیا بھر کے تمام مذہبی،سیاسی،ثقافتی اور انسانی حقوق کے ماننے والے متحد ہو کر مشترکہ جد وجہد کرتے ہوئے بیت المقدس کی آزادی کیلئے کام کریں اورگلوبل مارچ ٹو یروشلم کے ذریعے پوری دنیا کو بیدارکریں تاکہ بیت المقدس صیہونی غاصبانہ تسلط سے نجات حاصل کر سکے۔
اِس تناظر میں گلوبل مارچ ٹو یروشلم امید کی روشن کرن ہے، جس کے ذریعے پوری دنیا میں بیداری کا عمل شروع ہو چکا ہے آج اسماعیل حانیہ کی کہی ہوئی بات سچ ثابت ہو رہی ہے، اب امریکہ اور اسرائیل سمیت دنیا کی کوئی ظالم وجابرطاقت زیادہ دیر فلسطینیوں کے آواز کو دبا نہیں سکتی آج دنیا بھر کے آزاد حریت پسند فلسطینی پرچم تھامے ان کے ساتھ ہم آواز ہیں اور وہ دن دور نہیں جب گلوبل مارچ ٹو یروشلم مسئلہ فلسطین کو اجاگر کرنے اور فلسطین کی آزادی اور امت مسلمہ کی بیداری کا نیا سنگ میل ثابت ہو گا، 30مارچ 2012کو فلسطین کی چاروں سرحدوں پر ہونے والا یہ عظیم گلوبل مارچ ٹو یروشلم کسی ایک خطہ کا نہیں بلکہ دنیا بھر کے ان حریت پسندوںمارچ ہے، جو فلسطینیوں کے 36ویں یوم الارض کے موقع پر دنیا کے سامنے مسئلہ فلسطین کی اہمیت اجاگر کرنے اور ایک غاصب صیہونی ریاست کے انسانیت سوزمظالم کو عریاں کرنے کیلئے گلوبل مارچ کا یہ ترانہ گاتے ہوئے گامزن ہونگے۔
قدس ہمیں اپنی آنکھوں میں موجود دلفریب مسکراہٹ سے پکار رہا ہے۔ اس نے اپنے ہاتھ دنیا بھر کے آزاد انسانوں کی جانب بڑھا دیئے ہیں اور ہمارے قلوب کو اخلاص سے پر کر دیا ہے۔ اے قدس دنیا بھر سے حریت پسند انسان تیری جانب بڑھ رہے ہیں اور تیری آنکھوں کی حسین مسکراہٹ نے انہیں نتائج سے بے پرواہ کر دیا ہے۔ اے قدس ہم تیری سرحدوں پر جمع ہو رہے ہیں۔ اے قدس وہ لوگ جنہوں نے تیری توہین کی کبھی بھی امن سے نہ رہیں۔ تیری جانب عظیم سفر کے ذریعے تمام ادیان نے ہم کو متحد کر دیا، تیرے حسن نے ہمیں آزاد عزم اور ایمان کے ساتھ تیری سرحدوں پر جمع ہونے پر مجبور کر دیا۔ اے سنہری ریت والی سرزمین ہم تیری قید اور تکلیفوں کو نہیں بھولے۔ تیری محبت کتنے ہی دلوں میں بستی ہے جو سینکڑوں میل کا سفر کر کے تیری جانب آئے ہیں تاکہ تجھ سے قریب ہو سکیں اور ان کو اِس امر کے محال ہونے کی کوئی پروا نہیں۔