پاکستان : (جیو ڈیسک)وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ امریکی صدر براک اوباما سے ان کی ہونے والی ملاقات میں دوطرفہ تعلقات سے متعلق امور زیر بحث آئیں گے۔ ہفتہ کو ایک سرکاری بیان میں وزیراعظم گیلانی نے پارلمیان میں پاک امریکہ تعلقات کی نئی شرائط سے متعلق پیش کی گئی مجوزہ سفارشات کے بارے میں کہا کہ اس عمل کے ذریعے دوطرفہ تعلقات کو پاکستانی عوام کی حمایت حاصل ہو گی جو انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ 26 مارچ سے جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیول میں جوہری سلامتی سے متعلق سربراہ اجلاس کے موقع پر پاکستانی اور امریکی رہنماں کے درمیان ملاقات طے ہے۔
وائٹ ہاوس کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں رہنماں کی یہ ملاقات پاکستان اور امریکہ کے باہمی دلچسپی کے امور پر اعلی سطحی مشاورت جاری رکھنے کا اہم موقع ہو گی۔وزیرِاعظم گیلانی سیول نیوکلیئر سمٹ 2012 میں پاکستانی وفد کی قیادت کریں گے اور اس دو روزہ سربراہ اجلاس میں 53 سے زائد ممالک اور اداروں کے قائدین شرکت کریں گے۔حکمران پیپلزپارٹی کے سینیئر رہنما اور سابق وزیر مملکت برائے امور خارجہ ملک عماد نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ایک ایسے مرحلے پر جب پارلیمان امریکہ سے مستقبل کے اشتراک کا جائزہ لے رہی ہے وزیراعظم گیلانی اور صدر اوباما کی ملاقات انتہائی اہم ہے۔یہ تو ایک واضح بات ہے کہ پاکستان کے ساتھ امریکہ کے طویل المدتی تعلقات رہنے ہیں اور پارلیمانی عمل کے ذریعے ماضی کے ادوار کی ایسی چیزیں جو مفید نہیں ہیں، جو ملک کے حق میں نہیں ہیں، جو عوام کے مزاج اور جذبات کے خلاف ہے ان کو ہٹا دیا جائے گا۔
ملک عماد نے کہا کہ امریکہ سے مستقبل کے روابط کے بارے میں پارلیمان میں پیش کی مجوزہ سفارشات کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن ان کے بقول کوئی دو ملک اپنے سفارتی رابطوں کے دروازے مکمل طور پر بند نہیں کرتے اس لیے پاکستانی اور امریکی عہدیداروں کی ملاقاتیں ہونا بھی خوش آئند ہے۔غیر جانبدار مبصرین کا بھی ماننا ہے کہ دونوں ملکوں کی خواہش ہے کہ دوطرفہ تعلقات جلد سے جلد بحال ہوں۔ اس بارے میں تجزیہ کار رسول بخش رئیس کا کہنا ہے کہ پاک امریکہ تعلقات میں تعطل دونوں ملکوں کے مفاد میں نہیں ہے۔اس (تعطل) سے نہ تو پاکستان کے مفادات کا تحفظ ہو رہا ہے نہ ہی امریکہ کے مفادات کا، اس لیے تعلقات کو نئے سرے سے ترتیب دینے کی کوششیں ہو رہی ہیں تاکہ کوئی غلط فہمی رہے۔
انھوں نے کہا کہ دوطرفہ تعلقات کے بارے میں جہاں امریکہ میں سوچ و بچار کا عمل جاری ہے وہیں پاکستانی پارلیمان میں بھی سفارشات زیر بحث ہیں اور اسی طرح سے فوج اور اس کے ملحقہ ادارے ہیں وہ بھی سوچ بچار کر رہے ہیں۔رسول بخش رئیس نے مزید کہا کہ ان کے خیال میں ایسی کوششیں کی جا رہی ہیں کہ مستقبل میں پاک امریکہ تعلقات کی نوعیت اس طرح کی نا ہو کہ جس سے دونوں ممالک کے مفادات کا ٹکرا ہو۔ انھوں نے کہا کہ واشنگٹن اور اسلام آباد کو اس بات کا ادارک ہے کہ دونوں ملکوں کے ایک دوسرے سے مفادات وابستہ ہیں جن کے حصول کے لیے موثر طریقہ کار وضع کرنے کی ضرورت ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پارلیمانی عمل کے بعد پاک امریکہ تعلقات شاید اس نوعیت کے نا ہوں جو چند سال پہلے تھے لیکن ان کے بقول اس سارے طریقہ کار سے دوطرفہ تعلقات میں شفافیت آئے گی۔