اسلام آباد: (جیو ڈیسک) آئی ایس آئی کی طرف سے نوے کی دہائی میں آئی جے آئی بنانے کے مقدمے کی سماعت آج ہوئی۔ سماعت میں پنجاب حکومت کے خلاف دو سال قبل آئی بی کی فنڈنگ کا معاملہ بھی آ گیا، چیف جسٹس نے اس معاملہ پر ڈائریکٹر جنرل آئی بی کو تئیس اپریل کو رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کر دی۔
سپریم کورٹ میں اصغر خان کیس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی۔ ڈی جی آئی بی آفتاب سلطان مختصر نوٹس پر پیش ہوگئے۔اور بتایا 2009 میں مبینہ طور پر پنجاب حکومت گرانے میں استعمال ہونیوالے فنڈ کے ریکارڈ سے کچھ نہیں ملا۔ جس پر جسٹس طارق نے کہا کہ آپ نے اخبار کی خبر کی تردید کیوں نہیں کی۔ چیف جسٹس نے ڈائریکٹر جنرل آئی بی سے کہا کہ مشکل سے ملک میں جمہوری حکومت آئی ہے، آپ اسے ڈی ریل کرنا چاہتے ہیں۔ آپ کا مینڈیٹ صرف ملک کی سالمیت کا خیال رکھنا ہے۔ جسٹس خلجی عارف نے پوچھا طارق لودھی نے سیکریٹ فنڈ سے کتنی رقم نکلوائی، اس کا کوئی ریکارڈ ہے۔ جس پر ڈی جی آئی بی نے کہا فنڈ سے کتنی رقم نکلوائی اسکا رجسٹر نہیں ملا۔ عدالت نے ڈی جی آئی بی کو ریکارڈ کا جائزہ لیکر رپورٹ آئندہ سماعت تک جمع کرانے کی ہدایت کی۔
سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل نے بتایا مہران اور حبیب بینک کمیشن کی رپورٹ گم ہو گئی ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا رپورٹس کا گم ہو جانا عام بات نہیں۔ یہ نہایت اہم کیس سے متعلقہ دستاویزات تھیں۔ جسٹس طارق نے کہا یہ رپورٹ عوامی اثاثہ تھی۔ جسٹس خلجی عارف کا کہنا تھا رپورٹ کا غائب ہونا سمجھ سے بالا تر ہے۔ ایک صحافی نے دستاویزی شواہد عدالت کو فراہم کئے تو چیف جسٹس نے کہا یہ آپ کی خبر سے متعلق دستاویزات نہیں، آپ کی خبر غلط ہوئی تو آپ کو نوٹس دیا جائے گا۔ بعد میں سماعت 23 اپریل تک ملتوی کر دی گئی۔