رستہ بھی کٹھن دھوپ میں شدت بھی بہت تھی
Posted on April 4, 2012 By Adeel Webmaster پروین شاکر
alone man walking in sunshine
رستہ بھی کٹھن دھوپ میں شدت بھی بہت تھی
سائے سے مگر اس کو محبت بھی بہت تھی
خیمے نہ کوئی میرے مسافر کے جلائے
زخمی تھا بہت پائوں مسافت بھی بہت تھی
سب دوست مرے منتظر پردئہ شب تھے
دن میں تو سفر کرنے میں دقت بھی بہت تھی
بارش کی دعائوں میں نمی آنکھ کی مل جائے
جذبے کی کبھی اتنی رفاقت بھی بہت تھی
کچھ تو ترے موسم ہی مجھے راس کم آئے
اور کچھ مری مٹی میں بغاوت بھی بہت تھی
پھولوں کا بکھرنا تو مقدر ہی تھا لیکن
کچھ اس میں ہوائوں کی سیاست بھی بہت تھی
وہ بھی سرِ مقتل ہے کہ سچ جس کا تھا شاید
اور واقفِ احوال عدالت بھی بہت تھی
اس ترک رفاقت پہ پریشاں تو ہوں لیکن
اب تک کے ترے ساتھ پہ حیرت بھی بہت تھی
خوش آئے تھے شہرِ منافق کی امیری
ہم لوگوں کو سچ کہنے کی عادت بھی بہت تھی
پروین شاکر