کوئٹہ : (جیو ڈیسک) یکم مارچ کو لاپتہ ہونے والے سات افراد میں سے چار کو سپریم کورٹ میں پیش کر دیا گیا چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ آج بھی دو لاشیں ملی ہیں۔ انسان اور جانور میں تمیز ہی باقی نہیں رہی۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں تین رکنی لارجر بنچ کوئٹہ رجسٹری میں سریاب سے لاپتہ ہونے والے افراد کے کیس کی سماعت کر رہا ہے۔ بنچ میں جسٹس خلجی عارف اور جسٹس طارق پرویز بھی شامل ہیں۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کی عدم موجودگی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل کی غیرموجودگی سے معلوم ہوتا ہے کہ وفاق اس معاملے میں کتنی دلچسپی رکھتا ہے۔
جسٹس عارف خلجی نے کہا کہ صادق عمرانی نے اسمبلی کے فلور پر الزام لگایا تھا کہ ایف سی لوگوں کو قتل کر رہی ہے، چیف جسٹس نے آئی جی ایف سی سے کہا کہ جب فورسز کی عزت نہ رہے تو کیا ہو گا حلف اٹھانے والا الزام لگا رہا ہے آپ پرسنگین الزا مات ہیں ،آئی جی ایف سی میجر جنرل عبید اللہ نے بتایاکہ صوبائی وزیر کے الزام کے بعد میڈیا پر تردید پیش کر دی گئی تھی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ پولیس کو ساتھ لیکر چلیں تو معاملات ٹھیک ہو جائیں گے ،آپ پولیس سے ایک قدم آگے نہ بڑھیں۔ چیف جسٹس نے آئی جی ایف سی سے سوال کیا کہ ایف سی کے کتنے اہلکار مارے گئے اور کس کس کی ایف آئی آر درج کروائی گئی۔
سیکریٹری داخلہ نے سماعت کے د وران بتایا کہ گزشتہ تین سال کے دوران ایک ہزار چھپن افراد جاں بحق ہوئے ہیں جن میں دو سو ستائیس ایف سی اور ایک سو چھیانوے پولیس اہلکار شامل ہیں۔ پولیس نے یکم مارچ کو سریاب روڈ سے لاپتہ ہونیوالے سات افراد میں سے چار افراد کو عدالت میں پیش کردیا۔ بازیاب ہونے والے افراد میں ہزار خان، مزار خاں، بلخ شیر اور جاوید شامل ہیں۔ جن کی عمریں اٹھارہ سے پچیس سال کے درمیان ہیں۔ سپریم کورٹ نے گزشتہ روز حکم دیا تھا کہ سات لاپتہ افراد کو پیش نہ کیا گیا تو آئی جی سمیت تمام افسران کو معطل کر دیا جائے گا۔