برما : (جیو ڈیسک) برما کے انتخابات میں حزبِ اختلاف کی کامیابی کے نتیجے میں امریکہ کی طرف سے عائد کی ہوئی کچھ پابندیاں ختم کر دی گئی ہیں، اور ہمسایہ ملکوں کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ تمام پابندیاں ختم کر دی جانی چاہئیں۔ غیر ملکی سرمایہ کاروں کی طرف سے برما کی معیشت میں دلچسپی میں اضافہ ہوا ہے لیکن تجزیہ کاروں نے انتباہ کیا ہے کہ ابھی بہت سے اقتصادی اور سیاسی چیلنجوں سے نمٹنا باقی ہے ۔
اس ہفتے امریکہ نے برما کے بعض اعلی عہدے داروں پر سے سفر کی پابندیاں اٹھا لیں، اور امریکہ نے کچھ سرمایہ کاری اور مالیاتی سہولتوں پر پابندیاں نرم کر دیں۔ سرمایہ کاری کی کمپنی لیپرڈ کیپیٹل کے ڈگلس کلیٹون نے ان اقدامات کا خیر مقدم کیا۔ انھوں نے کہا ترقیاتی سرگرمیوں کے بارے میں ہم بہت پر جوش ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ یہ میانمار کو ایک جدید معیشت میں ڈھالنے کی ابتدا ہے اور اس میں غیر ملکی سرمایہ کار اہم کردار ادا کریں گے ۔ ماضی میں جو پابندیاں لگائی گئی تھیں وہ ہٹا لی جانی چاہئیں کیوں کہ پابندیوں کی وجوہات بڑی حد تک ختم ہو چکی ہیں۔ اگرچہ امریکہ نے کہا ہے کہ برما کے لیے سفیر کی نامزدگی کی تیاریاں ہو رہی ہیں، لیکن وزیر ِخارجہ ہلری کلنٹن نے کہا ہے کہ اصلاحات کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے ۔
یہ موقف آسیان یعنی جنوب مشرقی ایشیا کے ملکوں کی انجمن کے ملکوں کے موقف کے خلاف ہے۔ ان ملکوں نے جو برما کے ہمسایے ہیں، کہا ہے کہ تمام پابندیاں اٹھا لی جانی چاہئیں۔آسیان کی طرف سے برما کی حمایت کے مظاہرے کے با وجود، تمام ممبر ملک اس رائے سے متفق نہیں ہیں۔آسیان انٹر پارلیمنٹری میانمار کے اندر آسیان کے سیاستداں کہتے ہیں کہ اس مرحلے پر تمام پابندیوں کا اٹھایا جانا، قبل از وقت ہو گا اور اس سے ملک میں عدم استحکام پیدا ہو سکتا ہے ۔
اس کاکس میں تھائی لینڈ کے نمائندے کرایساک چونہاوین کہتے ہیں کہ نسلی اقلیتوں والے علاقوں میں لڑائی کو ختم کرنے کو ترجیح دی جانی چاہیئے اور اس کے بعد پابندیوں کو پوری طرح اٹھانے پر غور کیا جانا چاہیئے ۔پابندیاں ختم کرنے کے لیے سخت دباؤ ڈالے جا رہے ہیں اور آسیان کی طرف سے حکومت کو خوش کرنے کے لیے ایسا ہی مطالبہ کیا گیا ہے ۔ لیکن جہاں تک اس حکومت کی طرف سے شان اسٹیٹ، کارن اسٹیٹ، کاچن اسٹیٹ اورمون اسٹیٹ پر مکمل اقتدار قائم رکھنے کا سوال ہے، یہ حکومت اب بھی انتہائی سخت گیر اور ظالم ہے۔حالیہ دنوں میں برما کی حکومت کاچن اور کارن کے ساتھ جنگ بندی کے مذاکرات کرتی رہی ہے ۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے کہا ہے کہ ان علاقوں میں فوجی کارروائیوں کے نتیجے میں حالیہ مہینوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کی گئی ہیں، اور سویلین آبادیوں پر حملے کیے گئے ہیں۔
کرایساک نے اس اندیشے کا اظہار کیا ہے کہ اب جب کہ برما میں حزب ِ اختلاف کی بڑی پارٹی کو قومی پارلیمینٹ کے ضمنی انتخابات میں، کافی نشستیں مل گئی ہیں، ہو سکتا ہے کہ یہ پارٹی اقلیتی آبادیوں کے مسائل کو پس پشت ڈال دے ۔جمہوریت کے حامی دوسرے گروپوں نے کہا ہے کہ پابندیاں صرف اس صورت میں ہٹائی جانی چاہئیں جب حکومت تمام سیاسی قیدی رہا کر دے۔ تھائی لینڈ میں قائم اسسٹنس ایسوسی ایشن فار پولیٹیکل پرزنرز نے کہا ہے کہ برما میں اب بھی 900 سیاسی قیدی جیلوں میں بند ہیں۔ ایک پریس ریلیز میں ہیومن رائٹس واچ نے پابندیاں اٹھانے میں احتیاط سے کام لینے کا مشورہ دیا اور کہا کہ اگرچہ برما کی حکومت نے جو مثبت اقدامات کیے ہیں، ان کے جواب میں یورپی یونین کو بھی ان کی مناسبت سے مثبت کارروائیاں کرنی چا ہئیں لیکن ایسا نہیں کیا جانا چاہیئے کہ تمام پابندیاں فوری طور پر ختم کر دی جائیں۔
اس گروپ نے کہا ہے کہ یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کو ویزے کی پابندیوں میں مزید نرمی، اور انسانی مصائب کم کرنے اور ترقیاتی امداد میں اضافے پر غور کرنا چاہیئے ۔ اگرچہ پابندیاں ابھی باقی ہیں، لیکن غیر ملکیوں کی طرف سے جو اس ملک کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتے ہیں ،برما کی سیاحت میں اضافہ ہوا ہے۔آسٹریلیا کی میک کوائر یونیورسٹی میں معاشیات کے ایسو سی ایٹ پروفیسر شان ٹرنیل کہتے ہیں کہ سرمایہ کار پہلے ہی کوشش کر رہے ہیں کہ غیر ملکیوں کو اس ملک میں جو دلچسپی پیدا ہوئی ہے، اس سے فائدہ اٹھائیں ۔
ایشیا کے سرمایہ کار تو پہلے سے یہاں موجود رہے ہیں ۔ لیکن ان میں سے بعض لوگ سوچ رہیہیں کہ مغربی دنیا کے ٹورسٹ اس ملک میں بڑی تعداد میں آئیں گے، اور ایشیا کے سرمایہ کاروں کو ہوٹلوں اور سیاحت کی سہولتوں کی تعمیر میں دلچسپی پیدا ہو ئی ہے۔ برما کی معیشت میں حالیہ برسوں میں پابندیوں کے باوجود ترقی ہوئی ہے، جس سے بعض صنعتوں کے لیے مشکلات پیدا ہوئی ہیں، لیکن کچھ صنعتوں کو فائدہ ہوا ہے ۔ علمی حلقوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے کہا ہے کہ تجارتی اور مالیاتی پابندیوں سے ایسی صنعتوں میں کام کرنے والے مزدوروں کے لیے مشکلات پیدا ہوتی ہیں جو بر آمدی اشیا بنانے والے صنعتوں میں، جیسے ٹیکسٹائل کی صنعت میں کام کرتے ہیں ۔ اس طرح بہت سے لوگ جو فیکٹریوں میں کام کرنا پسند کرتے، تفریح یا جنس کی صنعت میں کام کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔
تجزیہ کارکہتے ہیں کہ برما کو بعض مشکل مسائل درپیش ہیں۔ پانچ عشروں کی فوجی حکومت کے دوران معیشت بد انتظامی کا شکار رہی ہے اور اب اسے نئے سرے سے تعمیر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔