سیاست کے لغوی معنی حکومت چلانا اور لوگوں کی امرونہی کے ذریعے اصلاح کرنا ہے جبکہ اصطلاحی معنوں میں فنِ حکومت اور لوگوں کو اصلاح کے قریب اور فساد سے دور رکھنے کو سیاست کہتے ہیں۔ اسلام میں سیاست اس فعل کو کہتے ہیں جس کے انجام دینے سے لوگ اصلاح سے قریب اور فساد سے دور ہو جائیں جبکہ اہل مغرب فنِ حکومت کو سیاست کہتے ہیں اور امورِ مملکت کا نظم و نسق برقرار رکھنے والوں کو سیاستدان کہا جاتا ہے ۔ برصغیر میں چونکہ ایک طویل عرصہ تک انگریزوں کی حکومت رہی اس لیئے اس خطے میں رائج سیاسی نظام بھی اُن سے ورثے میں ملا۔ پاکستان کی سیاست عرصہ دراز سے فوجی آمریت کے ہاتھوں دبی رہی ہے جبکہ جمہوری دور میں سیاست سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور وڈیروں کے کھیل کا نام سمجھی جاتی ہے جس میں غریب صرف نعرے بازی اور ووٹ ڈالنے کی حد تک شریک ہوتا ہے اور کسی شریف آدمی کا اس میں حصہ لینا انوکھی بات سمجھی جاتی ہے کیونکہ اخلاقی لحاظ سے ہماری سیاست انتہائی پستی کی طرف گامزن ہو چکی ہے۔ زندگی کے ہر شعبے میں خواہ وہ سیاست ہو یا معاش، خاندانی زندگی ہو یا اجتماعی سبھی میں اخلاقی قدروں کو خصوصی اہمیت دی گئی ہے لیکن اس وقت پاکستانی سیاست نے اخلاقیات سے اپنا دامن چھڑا لیا ہے۔ اس کی بڑی وجہ سیاست میں چوہدراہٹ اور جاگیردارانہ سوچ ہونے کیساتھ سیاستدانوں کا کم تعلیم یافتہ ہونا بھی ہے۔
پاکستان میں سیاست اس وقت ایک منافع بخش کاروبار بن چکا ہے اور اس کا برملا اظہار خود سیاستدان بھی وقتاً فوقتاً کرتے چلے آ رہے ہیں۔اگر سیاست ایک کاروبار ہے تو کاروبار میں بھی کچھ اخلاقیات ہوتی ہیں۔ وہ زمانہ گیا جب اخلاقی روایات سیاست میں قائم تھیں اور سیاستدان شدید مخالفت کے باوجود ایک دوسرے کی عزت و وقار اورمقام و مرتبے کا لحاظ رکھتے تھے مگر اب سیاست دان کی پہچان یہ ہو چکی ہے کہ وہ ملکی مفاد کی تشہیر کرکے ذاتی مفاد حاصل کرنے کیساتھ ساتھ عوام کے جذبات سے کھیلتا ہے، انہیں اچھے دنوں کی آس دلا کر مشکل وقت میں خود منظر سے غائب ہو جاتا ہے ، عوام کو اپنی انگلیوں پر نچاتا ہے اور پھر وعدے کرکے مُکر جاتا ہے۔ یہ جب اقتدار میں ہوتے ہیں تو فرعون بن جاتے ہیں اور اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو ان سے زیادہ محب وطن کوئی نہیں ہوتا۔ اب شائد وہی بڑا سیاست دان کہلاتا ہے جو مخالفین کے لئے زیادہ سخت زبان استعمال کرے۔ ٹی وی چینلز پر روزانہ ایسے مناظر دیکھے جا سکتے ہیں اوراس دلدل میں صنف نازک بھی پھنس چکی ہیں۔ اب تو وہی کامیاب اور اچھا سیاست دان سمجھا جاتا ہے جو اپنے مخالفین کے لئے انتہائی گندی زبان استعمال کرتا ہے۔
ویسے مجھے سمجھ نہیں آتی کہ گالیاں دینے والے آدمی کو دانشور یا تجزیہ نگار کیسے کہا جا سکتا ہے لیکن ہمارے اینکرز حضرات پروگرام کی ریٹنگ بڑھانے کیلئے ایسے سیاستدانوں کو اپنے پروگرام میں ترجیح دیتے ہیں جو غیر مہذب زبان استعمال کرکے مخالف کو زیر کرنے کا فن جانتے ہوں۔ صرف ٹی وی کے ٹاک شوز ہی نہیں ایسی بد تہذیبی پارلیمنٹ میں بھی نظر آتی ہے بلکہ وہاں تو گالم گلوچ عام بات ہو گئی ہے۔ ایسے سیاست داں ایک دوسرے پر کیچڑ اچھال کر نہ صرف خود تماشہ بنتے ہیں بلکہ یہ اپنی اخلاقیات قوم کو بھی دکھا رہے ہوتے ہیں۔ یہ بظاہر مخالفین کو تو اخلاقیات کا درس دیتے ہیں لیکن اپنی باتیں انتہائی واہیات ہوتی ہیں۔ انہیں اپنے بیانات کا کوئی پاس نہیں ہوتا وہ جب چاہیں کسی کے خلاف بھی انتہائی غلیظ زبان استعمال کرتے ہیں جبکہ ایسے سیاستدانوں کو سن کر سیاست اور سیاست دان دونوں سے نفرت ہو جاتی ہے۔اس میں شک نہیں کہ سیاست میں انتہائی شریف النفس ، ایماندار اور پڑھے لکھے سیاست دان بھی موجود ہیں لیکن چند گندی مچھلیوں کی وجہ سے وہ بھی بدنام ہو چکے ہیں۔
ایسے سیاست دانوں کا اصل مسئلہ ایک دوسرے کو ذلیل کرکے بازی لے جانا ہوتا ہے لیکن کیا سیاست دان سمجھتے ہیں کہ وہ اس طرح کی غیر مہذب اور غیر پارلیمانی زبان استعمال کرکے عوام کی خدمت کر رہے ہیں۔زبان درازی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ کہتی ہے تُو مجھے منہ سے نکال میں تمہیں گاؤں سے نکلواتی ہوں جبکہ حدیث شریف میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زبان کی حفاظت کرنے والے کو جنت کی بشارت دی۔ یہ زبان ہی ہے جو اگر منہ پھٹ کے ہاتھ لگ جائے تو وہ کہنے اور سننے والے دونوں کی ایسی تیسی کر دیتی ہے۔ہر روز صبح کے وقت جسم کے سارے اعضاء زبان کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہو جاتے ہیں کہ بی بی تم کوئی ایسی بات نہ کر دینا جس کا خمیازہ ہمیں بھگتنا پڑے۔ الفاظ جب تک منہ میں ہوتے ہیں تو آپ کے کنٹرول میں ہوتے ہیں اور جیسے ہی وہ منہ سے باہر آتے ہیں تو آپ ان کے کنٹرول میں ہو جاتے ہیں۔اچھی اور شائستہ زبان ہمیں قابلِ عزت بناتی اور ہماری نیکیوں میں اضافہ کرتی ہے جبکہ خراب اور بیہودہ زبان ہماری ساری عزت ختم کر دیتی اور گناہوں میں اضافہ کا ذریعہ بھی بنتی ہے لہٰذا عقلمند لوگ ہمیشہ اپنی زبان کو سوچ سمجھ کر اور اچھے طریقے سے استعمال کرتے ہیں۔
سیاست دانوں کے لئے بھی کوئی ضابطہ اخلاق متعین ہونا چاہئے۔ آج کل اگر ایک انسان جھوٹ بول کر حقائق کو مسخ کرنے کی کوشش کرے تو لوگ کہتے ہیں یہ بڑا سیاست دان ہے۔ ہم دھوکے باز مذہبی و غیر مذہبی سیاستدانوں کے منہ سے آمریت کے خلاف تقریریں سن سن کر آمریت کو تو اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھنے لگے ہیں مگر اس آمریت کو جنم دینے والے اور اسے پروان چڑھانے والے مذہبی و غیر مذہبی کاروباری سیاستدانوں کو اپنا مسیحا سمجھتے رہتے ہیں، جنہوں نے ہمیشہ پاکستان اور اسلام کے نام پر نہ صرف اپنی سیاسی دکانداری چمکائی بلکہ اپنی جیبیں بھرنے کو ہی اسلام اور جمہوریت ٹھہرایا ہوا ہے۔ پاکستانی سیاست دانوں کے سکینڈلز جس طرح سامنے آ رہے ہیں اس سے قوم میں بڑے پیمانے پر مایوسی بڑھ رہی ہے۔ ایک دوسرے پر الزام تراشیوں اور جوابی الزامات کے سلسلے سے پتہ چلتا ہے کہ اس حمام میں سب بے لباس ہیں۔ عقلمند اور سلجھے ہوئے لوگ کسی مسئلے کے حل کیلئے مخالفین کے ذاتی کردار پر کیچڑ اچھالنے کی بجائے اصل مسئلے کو زیر بحث لاتے ہیں اور اس کا حل ایسا تجویز کرتے ہیں کہ دوبارہ غلطی کا امکان نہ رہے۔ ہمارے سیاستدانوں کو بھی چاہئے کہ وہ بھی اسی اصول پر عمل کریں اور دوسروں کیلئے اچھی مثال بنیں۔