ایشیاء کپ: ء 1971میں پاکستان دو حصوں میں بٹ تو گیا لیکن یہ تقسیم دونوں ممالک کے عوام میں سے ایک دوسرے کے لیئے پائے جانے والے پیار،محبت ، خلوص اور احساس ہمدردی کو ختم نہ کرسکی ایسے ہی جذبے کی ایک جھلک مارچ 2012ء میں بنگلہ دیش میںہونے والے ایشیاء کپ کے دوران دیکھنے کو ملی جہاں بنگلہ دیش کے عوام نے انڈیا اور سری لنکا کے خلاف کھیلے گئے میچز کے دوران دل کھول کر پاکستان کرکٹ ٹیم کو سپورٹ کیا اور کچھ ایسا ہی جذبہ بنگلہ دیش کے میچز کے دوران پاکستان کے عوام میںبھی دیکھنے کو ملا اور یہاں تک کہ پاکستان کے لوگوں نے ایشیاء کپ کی فتح کا جشن منانے کے ساتھ ساتھ بنگلہ دیش کی ہار پر دُکھ اور افسردگی کا اظہار کیا اور بنگلہ دیش کرکٹ ٹیم کو پورے ٹورنا منٹ میں زبردست کارکردگی دکھانے پر مبارک باد دی اور تعریف کی کہ اگر پاکستانی کھلاڑیوں نے ایشیاء کپ جیتا ہے تو بنگلہ د یشی کھلاڑیوں نے اپنے عمدہ کھیل سے لوگوں کے دل جیت لیئے ہیں لیکن ایشاء کپ کے اختتام کے فوراً بعد ہی بنگلہ دیش کرکٹ بورڈ کے روئیے میںآنے والی تبدیلی سے پاکستانی کر کٹ شا ئقین کو بہت دکھ پہنچا ہے۔
بنگلہ دیش کرکٹ بورڈ کا یہ الزام کہ فائنل میچ میں آخری آور کے دوران پاکستانی فاسٹ بالراعزاز چیمہ نے بنگلہ دیشی بیٹسمین محمد اللہکو سکور لینے سے روکا تھا جس کے لیئے ایشن کرکٹ کونسل میںپاکستان کی ایشیا ء کپ کی فتح کو چیلنج کرنے کا فیصلہ کرلیا اور پانچ رنز بنگلہ دیشی ٹیم کو دلاکر ایشین ٹرافی کے دوبارہ حصول کا خواب دیکھنا شر وع کر دیا لیکن ایشین کرکٹ کونسل نے بنگلہ دیش کرکٹ بورڈ کے خوابوں کو خواب ہی رہنے دیا کیونکہ فیصلہ پاکستان کے حق میں ہی ہوا بنگلہ دیش کرکٹ بورڈ پاکستان کرکٹ بورڈ کیساتھ جو کچھ کر رہا ہے اصل میں اس کے پیچھے انڈیا کا ہاتھ ہے جسے بنگلہ دیش کی ہار سے زیادہ پاکستان کی جیت کادکھ ہے۔
انڈیا ایشیاء کپ سے باہر ہونے کے بعد نہیں چاہتا تھا کہ پاکستان ایشیاء کا بادشاہ بنے اور نہ ہی پھر سے پاکستان میںانٹرنیشنل کرکٹ بحال ہو اپنے اسی مقصد کو پورا کرنے کے لیئے بھارت بنگلہ دیشی کرکٹ بورڈ کو بہلاپھسلاکر پاکستان کے خلاف استعمال کررہا ہے لیکن بنگلہ دیش کرکٹ بوڑد جن کے اشعاروں پر یہ سب کچھ کر رہا ہے شاید ابھی تک اُن کے اصلی چہر وں سے واقف نہیںہوا اور شاید بنگلہ دیش یہ بھی بھو ل چُکا ہے کہ یہ وہی انڈیا ہے جس نے کچھ عرصہ پہلے ہی یہ اعلان کیا تھا جس لیول کی بنگلہ دیش ٹیم ہے انڈیا مزید دس سال تک اس کے ساتھ ٹیسٹ میچ نہیںکھیلا گاجبکہ بنگلہ دیش کو کرکٹ میں ٹیسٹ سٹیٹس ملنا پاکستان کا مرہون منت ہے بھارت کرکٹ بورڈ کے ساتھ ساتھ انڈیا کے میڈیا نے بھی پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان دوریاں بڑھانے میں کی کوئی کسر نہیںچھوڑی بھارت کے میڈیا نے تو ایشیاء کپ کے فائنل کو میدان جنگ بنا دیا اور چند ٹی وی چینلز پر تو یہاں تک دیکھنے اور سُننے کو مِلاکہ 1971 کا پاکستان سے بدلا لینا کا بنگلہ دیش کے پا س یہ سنہری موقع ہے اورشاید یہی وجہ تھی کہ میچ ہارنے کے بعد تماشبینوں کے ساتھ ساتھ کھلاڑی بھی ایسے رو رہے تھے جیسے کوئی میچ نہیںبلکہ جنگ ہار گئے ہوں۔
اس وقت بنگلہ دیش کے اندورنی معاملات اور بنگلہ دیش کرکٹ بورڈ کے معاملات میںبھارت کی مداخلت کی وجہ بنگلہ دیش کی موجودہ وزیراعظم شیخ حسینہ ہے جو اینٹی پاکستان اور بھارت کی وفادار ہے جو بنگلہ دیش کو منی بھارت بنا نے کی کوشش میںلگی ہوئی ہے یہی وجہ ہے کہ بنگلہ دیش کرکٹ بورڈ شیخ حسینہ کی وجہ سے بھارت کے اشعاروں پر ناچ رہا ہے۔
شیخ حسینہ کے اند ر پاکستان کے خلاف پائی جانے والی نفرت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان کی جیت کیساتھ ہی اُس کا موڈ ایسا خراب ہو ا کہ وہ تقسیم انعامات کی تقریب سے قبل ہی اُٹھ کرا سٹیڈیم سے رخصت ہوگئیںاوریہ روئیہ ایک سربراہ مملکت کے شایانِ شان نہیںتھا شاید بنگلہ دیش کرکٹ ٹیم کی ہار نے شیخ حسینہ کے وہ سیاسی مقاصد پورے نہیںہونے دئیے جنکی امید لیئے وہ میچ دیکھنے آئی تھی کیونکہ اس وقت شیخ حسینہ کی حکومت کو تما اپوزیشن کی پارٹیوں جن میں بی ۔این۔پی۔ جماعت اسلامی ، بنگلہ دیشی جاتیاپارٹی ، اسلامی اوکوجوٹ، خلافت مجلس اہم ہیںاور بنگلہ دیشی عوام کی طرف سے شدید دبائو کا سامنا کرناپڑ رہا ہے۔
شیخ حسینہ نے الیکشن جیتنے کے لیئے جو نعرہ لگایا تھا ،الیکشن جیتائو ۔دس ٹکا میں چاول کھائو ،یہ نعرہ لگاکر وہ وزیر اعظم تو بن گئیںلیکن آج وہی نعرہ شیخ حسینہ کے گلے کا پھندہ بن چُکا ہے کیونکہ اس وقت بنگلہ دیش میںایک کلوگرام چاول کی قیمت پنتالیس ٹکے ہے جو حکومت کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج بنگلہ دیش کے16کروڑ لوگ شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے لیئے سراپاء احتجاج بنے ہوئے ہیں۔
ایشیاء کپ کے فائنل میں ملی ہار اور ایشن کرکٹ کونسل کی طرف سے ملنے والی مایوسی کے بعد بنگلہ دیش کرکٹ بورڈ نے اپریل میں اپنی کرکٹ ٹیم کو پاکستان نہ بھیجنے کا فیصلہ کرلیا ہے اور اپنے اس فیصلے سے پاکستان کو آگاہ بھی کر دیاہے بنگلہ دیشی ٹیم کی پاکستان نہ آنے کا فیصلہ اس اعتبار سے حیرت انگیز ہے کہ بنگلہ دیشی کرکٹ بورڈ کے صدر مصطفی کمال پچھلے دنوں دورہ پاکستان کے بعد یہاں کے سکیورٹی انتظامات پر اطمنان کے ساتھ ساتھ اسے تسلی بخش بھی قرار دے کر گئے لیکن بنگلہ دیشی بورڈ ایشیا کپ کے اختتام کے ساتھ ہی یو ٹرن لیتے ہوئے سکیورٹی خدشات کے پیش نظر پاکستان کا دورہ کرنے سے انکار کردیااور جس کی وجہ سے مستقبل میںپاکستان اور بنگلہ دیش کرکٹ بورڈ کے تعلقات میں منفی اثرات پیدا ہو نے کا خدشہ نظر آرہاہے۔تحریر: کفایت حسین کھوکھر