مچھر مارنے کے لئے بہت سی ادویات ،ٹو ٹکے اور طریقہ کار بازار میں مہیا ہیں مثال کے طور پر ایک شخص نے تو بہت ہی آسان طریقہ دریافت کیا ہے مچھر مارنے کا اس کے مطابق اگر آپ سمجھیں کہ مچھر تنگ کرتا ہے اور پکڑنا مشکل لگتا ہو یا مارنا بس میں نہ رہے تو ایسا کریں کہ مچھر کو پکڑیں اس کا ایک بازو اوپر کی جانب اٹھائیں پھر اس کی بغل میں ، کْت کْتاری ، کریں وہ آپ کی طرف سے کی گئی اس حرکت کے جواب میں ہنسنے پر مجبور ہو جائے گا اور جب وہ ہنسنے کے لئے منہ کھولے تو مچھر مار ، دوا ، اس کے منہ میں ڈال دیں وہ مر جائے گا ، اس طریقہ کے دیکھا دیکھی ایک صاحب نے تو مچھر مارنے کا ایسا نسخہ تیار کیا کے جس کے استعمال کے بعد پھر دوبارہ کبھی بھی اس شخص کو مچھر نہ لڑ سکا وہ کچھ اس طرح کہ طریقہ دریافت کرنے والا شخص مچھر کے ہاتھوں بہت مجبور تھا مچھر تھا کہ مرنے یا ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا تھا جھنجھلا کر مذکور نے زہر کھا لیا کہ اب میرے اندر زہر ہے جب مچھر مجھے کاٹے گا تو مرے گا سالا ،ایک معزز اپنے بھائی کی تعریف میں شیخیاں مار رہا تھا کہ میرا بھائی بلڈنگ کی چھٹی منزل سے نیچے سڑک پر گرا اور اس کے منہ سے آہ تک نہ نکلی۔
سننے والا حیران ہوا کہ بھائی وہ کیسے ، شیخی مارنے والے نے کہا کہ وہ اوپر سے نیچے گرتے ہی دم توڑ گیا تھا اس لئے اس نے آہ تک نہ کی ، اب سپین میں مقیم پاکستانی کمیونٹی میں پائی جانے والی بلڈ پریشر ،ہارٹ پرابلمز ،اور سانس کی بیماریوں کو مد نظر رکھتے ہوئے قونصلیٹ بارسلونا نے بھی ایسا ہی ایک طریقہ ایجاد کیا ہے تاکہ پاکستانی کمیونٹی کے مریض لفٹ کی بجائے چھ منزلوں کی سیڑھیاں چڑھ کر قونصلیٹ آفس میں آئیں ان کی ایکسر سائز بھی ہوجائے گی اور ان کی بیماریاں بھی کسی حد تک دور ہو جائیں گی۔
اس علاج کے کئی فوائد ہیں مثال کے طور پر پہلا فائدہ تو یہ ہے کہ حالات کی ماری ہوئی کمیونٹی جْوں جْوں سیڑھیاں چڑھتی ہوئی آفس جا رہی ہوتی ہے تو تب ان کے دل میں انتقام کے طور پر غصہ کی کیفیت پایا جانا امر ربی ہے اور جب وہ سینکڑوں سیرھیاں چڑھ کر منزل پر پہنچتے ہیں تو بجائے اس کے وہ لڑیں جھگڑیں یا غصہ کا اظہار کریں وہ بیچارے سانس کو درست کرنے میں غنیمت جانتے ہیں اس لئے آدھا گھنٹہ تو بات ہی نہیں کر سکتے جب سانس درست ہوتی ہے تو تب تک وہ اپنا غصہ بھْول چکے ہوتے ہیں اب اگر سانس لیتے لیتے قونصلیٹ آفس بند ہونے کا وقت ہو جائے اور وہ مریض بیچارے واپسی کی ہمت نہ رکھتے ہوں تو ان کی مدد کے لئے بارسلونا کے قانون نافذ کرنے والے ادارے موجود ہوتے ہیں وہ ایک ہی کال پر قونصلیٹ آفس پہنچ جاتے ہیں اور مریضوں کی مدد شروع ہو جاتی ہے مریض کی طبیعت اگر زیادہ خراب ہو جائے تو اسے ہسپتال کی بجائے تھانہ جات میں لے جایا جاتا ہے۔
تھانے جاکر مریضوں کو انجکشن دیا جاتا ہے جس سے وہ 72 گھنٹے تک سکون کی کیفیت میں آجاتا ہے اس انجکشن کو ، نیرو بیان ، کے ساتھ ملتا جلتا نام ، زیرو بیان ، دیا گیا ہے کیونکہ تھانے کے ڈاکٹر کے سامنے مریض کے بیان کی حثیت بالکل ، زیرو ، ہوتی ہے وہاں تو وہ بات مانی جاتی ہے جو طبیبِ قونصلیٹ بتاتا ہے ، قونصلیٹ بارسلونا میں پاکستانی کمیونٹی کی بیماریوں کا علاج کوئی ایک شخص نہیں کرتا بلکہ وہاں فارم پْر کرنے والے سے لے کر تمام سٹاف اس انتظار میں رہتا ہے کہ کب کمیونٹی کا کوئی مریض ہائے کرے یا واہ ویلہ کرے تو ، باوردی داکٹرز ، کو بلایا جائے ، دیکھا جائے تو یہ ایک طرح سے پاکستانیوں کی مدد اور خدمت ہی کا دوسرا نام ہے ،جب لفٹ کو بند کرنے کے بارے میں کہا جائے تو جواب میں سننے کو ملتا ہے ،، یار کمیونٹی کا ہم نہیں سوچیں گے تو کون سوچے گا ان کی صحت کا کون خیال رکھے گا ؟ سیڑھیاں چڑھ کر آنے سے خون کا فشار اور کلسٹرول کم ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ اگر کہا جائے کہ آپ باوردی داکٹرز سے علاج کی بجائے خود ہی کوئی ، پھکی ، یا ، گولی ، کروا دیا کریں ، تو بھی کہا جاتا ہے کہ ہماری گولی اب کارگر ثابت نہیں ہوتی کمیونٹی ہماری گولیوں کو سمجھ گئی ہے اب وہ ان مریضوں پر اثر نہیں کرتیں۔
بہرحال ہم کوشش کر رہے ہیں کہ ہم مطمعن کرنے کا کوئی کشتہ تیار کریں جو سب پر اثر انداز ہو کیونکہ ابھی تک تو وہ کشتہ صرف سپین میں مقیم سیاسی اور سماجی عہدیداران پر ہی اثرانداز ہو رہا ہے اسی لئے وہ ہم سے بحث نہیں کرتے بلکہ اپنا کام کرواتے ہیں اور چلتے بنتے ہیں ، یہ اسی ، کشتہِ مطمعینا ، کا کمال ہے وہ اس لئے بھی کہ کچھ سیاسی مریضوں کو صرف کام کروانے کی بیماری ہوتی ہے اس لئے ان کی بیماری کو قابو کرنا ہمارے بس میں ہے ، اب ساری کمیونٹی ہی اگر بیمار ہو جائے تو یہ وبا ختم کرنے کے لئے ہمیں ، وردیوں بھرا چھڑکاو ، کرنا پڑتا ہے اس سے مریض کی بیماری کے ساتھ ساتھ اس کے ساتھیوں میں سے بھی یہ بیماری دْور ہو جاتی ہے ،کہا جاتا ہے کہ جناب ہم تو یہاں کمیونٹی میں پائی جانے والی بیماریوں کو ختم کرنے کے لئے ہی بیٹھے ہیں۔
طریقہ علاج بتاتے بتاتے یہ بھی کہا گیا کہ ہم نے ایسی بیماریوں کو ختم کرنے کے لئے یہ بھی کیا ہے کہ اگر ہم سمجھیں کہ چند مریض ہماری دوائی سے ٹھیک نہیں ہو رہے تو ہم ان مریضوں سے تعلقات ختم کر لیتے ہیں اور ان کی جگہ نئے مریض بھرتی کر لئے جاتے ہیں اب اگر دس مریض ہمارے طریقہ علاج کی شکایت کریں تو نئے بھرتی کئے گئے چالیس مریض ہمارے طریقہ ِ علاج کے گْن گانے شروع کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے ہمارا ہسپتال قائم و دائم ہے ویسے بھی کمیونٹی میں بھائی چارے اور اتحاد و اتفاق کی فضا سرے سے ہے ہی نہیں اور اگر وہ فضا قائم ہونے کی کوشش کرے تو ہمارے ساتھی مریض اس فضا کا بیڑہ غرق کرنے میں زرا سی بھی تاخیر نہیں کرتے اور اپنا کام کرکے مکمل اور مفصل رپورٹ ہمیں پہنچا دیتے ہیں ،ایسے ،گن مینوں ، کی فوج ہر وقت ہمارے ساتھ رہتی ہے جو ہمارا دفاع کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں اور ان کی بات ماننا ہم اپنا فرض جانتے ہیں ، لفٹ بند کرنے ،باوردی ڈاکٹرز کی آمد ، زیرو بیان کا انجکشن ، 72 گھنٹے کی نیند ، یماریوں کا خاتمہ ، ایکسر سائز کی تلقین ، کمیونٹی پر پاگل پن کے دورے پڑنا اور اس وجہ سے قونصلیٹ کے دروازے بند کرکے ان کو علاج کی غرض سے ،تھانہ فارمیسی ، بھیجنا یہ کمیونٹی ویلفیئر نہیں تو اور کیا ہے ؟ کمیونٹی کو بھی چاہیئے کہ وہ اپنا واویلہ قونصلیٹ کی حدود میں نہ کرے کیونکہ وہاں ہمارے کچھ سیاسی اکابرین کی بیٹھک ہے اور وہ ہماری آواز کو کبھی بھی حکومتی ایوانوں تک نہیں پہنچنے دیتے ویسے بھی وہ اکابرین اسی خدمت کے بدلے اپنے اور جاننے والوں کے کام بلا جھجھک کرواتے ہیں۔
کمیونٹی کم عقلی کا مظاہرہ نہ کرے ، کیونکہ پاکستان کے چپڑاسی سے لے کر صدر پاکستان تک سب ایک ہیں اور ہمارا علاج کرنے والے بھی تو اسی سسٹم کا حصہ ہیں ، لہذا ہمیں اپنا علاج خود دریافت کرنا ہوگا ،اب اگر ڈاکٹرز ایکسر سائز کا کہیں تو ہمیں گراونڈ میں یا کھلی جگہ وہ ایکسر سائز کرنی چاہیئے ،گھر بیٹھے ایکسر سائز کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ، ڈاکٹر نے ایک مریض کا بڑھتا ہوا پیٹ دیکھ کر کہا کہ آپ کوئی گیم کھیلا کریں وہ مریض بھی ہماری کمیونٹی جیسا تھا اس نے ڈاکٹر کے کہنے پر اپنے موبائل پر سانپ والی گیم کھیلنی شروع کر دی تھی ہمیں ایسا نہیں بننا یا پھر اپنی بیماری کا واہ ویلہ نہیں کرنا۔۔۔۔ ؟؟؟ تحریر : شفقت علی رضا