گھر سے یہ سوچ کہ نکلا ہوں کہ مر جانا ہے
Posted on April 15, 2012 By Adeel Webmaster راحت اندوری
walking on railway line
گھر سے یہ سوچ کہ نکلا ہوں کہ مر جانا ہے
اب کوئی راہ دکھا دے کہ کدھر جانا ہے
جسم سے ساتھ نبھانے کی مت اُمید رکھو
اس مسافر کو تو رستے میں ٹھہر جانا ہے
موت لمحے کی صدا زندگی عمروں کی پکار
میں یہی سوچ کے زندہ ہوں کہ مر جانا ہے
نشہ ایسا تھا کہ مے خانے کو دُنیا سمجھا
ہوش آیا، تو خیال آیا کہ گھر جانا ہے
مرے جذبے کی بڑی قدر ہے لوگوں میں مگر
میرے جذبے کو مرے ساتھ ہی مر جانا ہے
راحت اندوری
Rahat Andoori – I went home thinking that it is dead