جنرل حمید گل کے نزدیک مولانا فضل الرحمن کا یو ٹرن افسوسناک ہے وہ مولانا کے امریکی سفیر اور صدر سے ملاقات کے بعد موقف کی تبدیلی پر بھی حیران ہیں اور کہتے ہیں کوئی مجبوری نہ ہونے کے باوجود مولانا کا فیصلہ سمجھ سے بالاتر ہے، عمران خان کہتے ہیں کہ نیٹو سپلائی کی بحالی پر زرداری، نواز اور مولانا ڈیزل کا مک مکا ہوگیا ہے،زرداری اورنوازشریف بھائی ہیں جبکہ فضل الرحمن اُن کے پارٹنرہیں، امیر جماعت اسلامی سید منور حسن کہتے ہیں کہ ن لیگ اور جے یو آئی کا حکومت کا اتحادی بن کر امریکی کیمپ میں جانا المیہ ہے، انہیں مولانا فضل الرحمن سے گلہ ہے کہ مولاناکل تک طالبان سے ہمدردی کر رہے تھے لیکن منٹر اور صدر سے ایک ہی ملاقات کے بعد وہ اپنا موقف تبدل کرکے انجمن غلامان امریکہ کے ہمنوا بن گئے، اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ پارلیمنٹ میں بیٹھے لوگ قومی مفادات پر امریکی مفادات کو ترجیح دینے اور امریکی غلامی میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوششوں میں مصروف ہیں، کچھ اسی قسم کے خیالات دیگر سیاسی رہنماؤںکے بھی ہیں، لیکن ہمارا ماننا ہے اِس میں حیرانی اور اچنبھے کی کوئی بات نہیں، نہ ہی ایسا پہلی بار ہوا ہے، دنیا جانتی ہے کہ میدان سیاست میں مولانا کا کردار کبھی بھی مثالی نہیں رہا، اُن کے طرز عمل نے ہمیشہ اُن کے بلند بانگ دعوؤں کی نفی کی ہے، جبکہ مولانا کی معاملہ فہمی ، دور اندیشی، موقعہ شناسی اور ابن الوقتی سے ایک زمانہ واقف ہے، حال ہی میںمولانا نے خود فرمایا کہ وہ صدر کی بات نہیں مانتے بلکہ اپنی ہر بات منواتے ہیں، اُن پر امریکی سفیر کیمرون منٹر سمیت کسی کا بھی منتر نہیں چلتا بلکہ اُن کا منتر دوسروں پر چل جاتا ہے۔ اب اِس اعتراف حقیقت کے بعد بھی کیا کچھ سمجھنے اور سمجھانے کی گنجائش باقی رہتی ہے۔
کیا جنرل حمید گل، عمران خان، منور حسین، قاضی حسین احمد، صاحبزادہ زبیر اور دفاع پاکستان کونسل کے دیگر سیاسی رہنماء اِس حقیقت سے واقف نہیں ہیں، کیا یہ لوگ نہیں جانتے کہ مولانا حزب اختلاف میں رہ کر اقتدار کی سیاست کرتے ہیں، وہ ہمیشہ اقتدار کے مزے لوٹتے ہیں اور اکثریہ کہتے نظر آتے ہیںکہ انہیں اقتدا ر عزیز نہیں، جمہوری اصولوں کی پاسداری چاہتے ہیں مگر جمہوری اصولوں کی پاسداری اور اقتدار سے دوری کیلئے وہ ہمیشہ اُس کولیشن کا حصہ ہوتے ہیںجومسند اقتدار پر متمکن ہوتی ہے وہ ہمیشہ حکومت اور حکومتی کارکردگی کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہیں، لیکن درپردہ حکومت اور حکومتی اقدامات کی تائید و حمایت جاری رکھ کر کبھی گھاٹے کا سودا نہیں کرتے، کیا یہ لوگ یہ بھی نہیں جانتے کہ سیاسی حوالے سے مولانا کی گفتگو ہمیشہ تحفظات اور خدشات کے گرد گھومتی نظر آ تی ہے، مگردرحقیقت یہ تحفظات اور خدشات اپنے مفادات کے تحفظ اور بقاء کیلئے ہوتے ہیں، کیا یہ لوگ اِس حقیقت سے بھی آشنا نہیں کہ مولانا فضل لرحمن نے ہر دور میں اقتدار کے مزے لوٹے اور مراعات یافتہ عہدوں کا حصول مولانا کا محبوب مشغلہ رہا ہے، وہ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دورحکومت میں خارجہ امور کی کمیٹی کے چیئرمین رہے۔
پرویز مشرف کی مارشل لاء کے تحت وجود میں آنے والی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف رہے جنرل مشرف کے دور حکومت کو آئینی تحفظ فراہم کرنے والی سترہویں آئینی ترمیم کو منظور کرانے میں اہم کردار ادا کرنے والے مولانا فضل الرحمن آج کشمیر کمیٹی کے چیئرمین ہیں، حالانکہ اُن کے اکابرین کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو جہاد کے بجائے اپنے ملک(بھارت) سے بغاوت کے مترادف قرار دیتے تھے، جمہوریت ، پارلیمنٹ کی بالادستی اور آئین و قانون کے راگ الاپنے والے یہ وہی مولانا فضل الرحمن ہیں جو 9مارچ 2007ء کو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی معطلی کے غیر آئینی اقدام پر شاہراہ دستور پر شرمندہ شرمندہ نظر آئے، مگر 3نومبر 2007ء کے غیرآئینی آمرانہ اقدام پرمعزز عدلیہ کے ججز کے خلاف دل کا غبار نکالتے دکھائی دیئے۔
اپنی مدت پوری کرتی اسمبلیوں سے جنرل پرویز مشرف کے غیرآئینی اور غیر قانونی صدارتی انتخاب کے موقع پر متحدہ مجلس عمل کے متفقہ فیصلے کے مطابق قومی و صوبائی اسمبلیوں سے بیک وقت استعفیٰ دینے کے حوالے سے بھی مولانا کا دورخی کردار کسی ڈھکا چھپا نہیں، آئینی اور قانونی موشگافیوں، تحفظات اور خدشات کا تذکرہ کرکے حکومتوں کو بلیک میل کرنے والے مولانا فضل الرحمن کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ جائز و ناجائز کسی بھی طریقے سے اعلیٰ حکومتی عہدوں کو حاصل کیا جائے، لہٰذا اِس میں حیرانی اور شکوئے کی قطعاً کوئی بات نہیں، کیونکہ ایسا پہلی بار تو نہیں ہوا، مولانا موصوف تو یہ عمل بارہا دہراچکے ہیں،وہ ہر حکومت میں اسی وجہ سے شامل رہتے ہیں کہ اُن کے پیش نظر جمہوری نظام کی بقاء اور نظریاتی ترجیحات ہوتی ہیں، اب وہ نظریاتی ترجیحات مالی منفعت ، جاہ و منصب اور ذاتی مراعات کے گرد گھومتی ہوں یا جمہوری نظام کسی فوجی آمریت کی کوکھ سے جنم لیتا ہو، مولانا ہمیشہ اپنی نظریاتی ترجیحات کیلئے اُس جمہوری نظام کوبچانے کی تگ و دو ضرور کرتے ہیں۔
ہاں یہ الگ بات ہے کہ اُس جمہوری نظام کو بچاتے بچاتے مولانا کو کچھ نہ کچھ فوائد، مراعات اور مفادات حاصل ہو جاتے ہیں، نیٹو سپلائی بحالی معاملے پر بھی یقیناً مولانا نے کوئی نہ کوئی قیمت ضرور وصول کی ہو گی، سب جانتے ہیں کہ مولانا کارزار سیاست کے ایک ایسے شہسوار ہیں، جنہوں نے ا پنے اسی انداز سیاست کی بدولت ملک کے سادہ لوح عوام کے ساتھ دیندار طبقے کو بھی حیران و ششدر کر رکھا ہے، آج اُن کی اعلی ترین سیاسی بصیرت اور جوڑ توڑ کا اِس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ عوام تو عوام خود ماہر سیاستدان بھی اُن کی اِس طرز سیاست پر حیران و پریشان اور یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ مولانا کی سیاست کے رنگ ڈھنگ اتنے انوکھے، نرالے اور عقل و خرد میں نہ آنے والے کیوں ہیں۔
اِس کا سیدھا ساداجواب یہ ہے کہ مولانا وطن عزیز کے ایک ایسے سیاست دان ہیں جن کا سیاسی اونٹ کبھی بھی، کہیں بھی، کسی بھی کروٹ بیٹھ سکتا ہے آپ وثوق سے نہیں کہہ سکتے، وہ کب کس کے ساتھ ہیں اور کب کس کے خلاف، ایک بین الاقوامی نشریاتی ادارے نے مولانا کے اِس طرز عمل کی خوبصورت تصویر کشی کرتے ہوئے لکھا تھا کہ مولانا فضل الرحمن سیاست کے مے خانے میں رند کے رند رہے ہا تھ سے جنت بھی نہ گئی وہ آئیڈیل ازم اور عملی سیاسی تقاضوں کو نہ صرف خلط ملط نہیں ہونے دیتے بلکہ بے وقت کی راگنی پر بھی اپنا وقت ضایع نہیں کرتے، مولانا طالبان کے ہیرو بھی ہیں اور اینٹی طالبان لابی کے بھی آئیڈیل، وہ جب چاہیں امریکہ کے خلاف آگ لگادیں اور جب چاہیں اِس آگ پر ٹھنڈی بالٹی انڈیل سکتے ہیں۔
فضل الرحمن جمعیت علمائے اسلام (ف) کے جمگھٹے میں ہوں تو ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ سے کم پر راضی نہیں ہوتے،باہر ہوں تو جنرل پرویز مشرف (اور اب آصف علی زرداری) کی اقتدار پسندی اور روشن خیالی کو بھی حرام نہیں کہتے،بس مکروہ سمجھتے ہیں،وہ فوجی سیٹ ا پ کے یکسر مخالف بھی ہیں اور موجودہ سیٹ اپ(جنرل پرویز مشرف) میں وزیر اعظم بننے کے خواہشمند بھی، مولانا فضل الرحمن واحد سیاستدان ہیں جو ایک ہی وقت میں پانچ مختلف رنگوں کی گیندیں ہوا میں اچھالنے کے ماہر ہیں اور اُن میں سے کسی کو بھی زمین پر گرنے نہیں دیتے۔
مولانا کا یہ بھی کمال ہے کہ وہ حکومت میں رہ کر اپوزیشن میں ہوتے ہیں اور کبھی اپوزیشن بینچوں پر بیٹھ کر وزارتوں کے مزے لوٹتے ہیں، اپنے اِس فن میں طاق ہونے کی وجہ سے آج وہ اپنی ذات میں ایک انجمن ہیں،شاید اسی وجہ سے لوگ انہیں چکری ساستدان کہتے ہیں، جو دوسروں کو چکر دے کر اپنا مقصد حاصل کرلیتے ہیں،انہوں نے جنرل مشرف کیساتھ آٹھ سالہ دور میں اقتدار اور حزب اختلاف دونوں کے مزے ایک ساتھ لینے کا نیا ریکارڈقائم کیا،یہ کریڈٹ بھی صرف مولانا ہی کو جاتا ہے کہ انہوں نے ایل ایف او کو آئین کا حصہ بنانے کیلئے ایم ایم اے کو جنرل مشرف کی مدد کیلئے راضی کیا اوراِس کے بدلے سرحد کی پوری اور بلوچستان کی آدھی حکومت حاصل کی اور خودقائد حزب اختلاف کی کرسی پر جا بیٹھے، یہ بھی انہی کا اعجاز ہے کہ اے پی ڈی ایم کے اجتماعی استعفوں کے باوجود مولانانے سرحد اسمبلی نہیں ٹوٹنے دی اور انتخابی کالج برقرار رکھ کر مشرف کوصدر منتخب ہونے کا پورا پورا موقع فراہم کیا، جبکہ اُن کے ساتھی قاضی حسین احمد سمیت جے یوپی، مسلم لیگ(ن) کے قائدین لکیرپیٹتے ہی رہ گئے۔
در اصل مولانا سیاست کے کوچہ ملامت کے وہ مسافر ہیں جن کا قول و فعل، کردار و عمل اور شخصیت ہمیشہ متنازعہ اور ابن الوقتی کی مظہر رہی ہے، سیاست کے اِس کوچہ ملامت میں مولانا کے قدم اگر ایک بار پھر لڑ کھڑا گئے تواِس میں حیران ہونے کی کونسی بات ہے، اِس کوچے میں تو بڑے بڑے صاحب کردار لوگوں کے قدم ڈگمگاجاتے ہیں، ویسے ویسے بھی سیاستدان تو سیاستدان ہی ہوتا ہے، کبھی بھی گھاٹے کا سودا نہیں کرتا، مولانا فضل الرحمن تو سیاستدانوں کے اُس قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں جو ہار کر بھی جیت جانے اور فائدہ اٹھانے کا گُر خوب جانتے ہیں،اِس مقام پر ہم اِن حیران و ششدر سیاسی رہنماوں کو وہ لمحہ یاد دلانا چاہتے ہیں جب مولانا فضل الرحمن نے امریکہ کو یہ باور کرانے کی کوشش کی تھی کہ پاکستان کی وزارت عظمیٰ کے وہی سب سے اہم اور اہل امیدوار ہیں،گو یہ بیل منڈھے نہیں چڑھی لیکن اُس وقت ہی یہ بات کھل کر سامنے آگئی تھی کہ مولانا فضل الرحمن اپنے اقتدار اور مفادات کیلئے کچھ بھی کرسکتے ہیں،کہیں بھی جاسکتے ہیں اور کسی سے بھی مدد کے خواہاں ہو سکتے ہیں، چنانچہ ہم جنرل حمید گل، صاحبزادہ زبیر، منور حسن اور قاضی حسین احمد وغیرہ کو یہ بھی یاد دلانا چاہتے ہیں کہ مشرف دور کے یہ وہی درباری مولوی ہیں جو آج موجودہ حکومت کی جھولی میں بیٹھے اُس کے ہاتھ مضبوط کررہے ہیں، کل کسی اور کے ہاتھ مضبوط کرتے نظر آئیں گے، بدقسمتی سے یہی ہماری سیاست کا معیار ہے کہ اپنے موقف میں بنیادی تبدیلی کرنے کے باوجود بانگ دہل کہا جائے کہ ہم فلاں فلاں معاملے میں تو اب بھی اپنے اصولی موقف پر قائم ہیں۔
یہی وہ شرمناک طرز عمل اور کردار وعمل کی دورخی ہے جس نے عوام کا سیاستدانوں پر سے اعتماد اٹھایا دیا ہے اور آج لوگ کسی بھی سیاسی لیڈرپر بھروسہ کرنے کو تیار نہیں ، لہٰذا اِس تناظر میں ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ مولانا کے طرز عمل پر حیرت و استعجاب کا اظہار کرنے اور کف افسوس ملنے کے بجائے ایسی حکمت عملی مرتب کی جائے، جس میںکسی بھی ابن الوقت ،کاسہ لیس اور مفاد عاجلہ کے رسیا سیاسی کردار کو فائدہ اٹھانے کا موقع نہ سکے، ہم یہاں یہ بات بھی واضح کرتے چلیں کہ اِن تمام باتوں کو دہرانے کا مقصد کسی کی توہین و تنقیص یاکیچڑ اچھالنا نہیں، بلکہ دفاع پاکستان کونسل اور بالخصوص جے یو پی کے قائدین کو وہ جھلک دکھانا مقصود ہے جس کی روشنی میں مستقبل کی صورت گری آسان ہو سکے۔