اسلام آباد: (جیو ڈیسک) وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک نے چیف جسٹس افتخار چوہدری کا مشورہ مسترد کر دیا کہ وہ استعفیٰ دے کر بے نظیر قتل کیس کی تحقیقات میں شامل ہو جائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بی بی کے کہنے پرجنرل مشرف اور دیگر قوتوں سے مذاکرات کئے۔
سپریم کورٹ بے نظیر بھٹو قتل کیس میں رحمن ملک، بابر اعوان اور پرویز الہی کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کی درخواست کی سماعت آج ہو گی، مدعا علیہان جوابات جمع کرائیں گے۔ رحمن ملک نے تحریری جواب اپنے وکیل انور منصور کے ذریعے عدالت میں جمع کرایا ہے جسے آج کمرہ عدالت میں پڑھ کر سنایا جائے گا۔
ذرائع کو ملنے والی دستاویزات سے معلوم ہوا ہے کہ رحمن ملک نے عدالت کوتحریری طور پر آگاہ کیا ہے کہ ان کے خلاف کوئی چھوٹا سا ثبوت بھی مل جائے جس سے ثابت ہوتا ہو کہ وہ بے نظیر بھٹو کے قتل کی سازش میں شریک تھے تو وہ مستعفیٰ ہو جائیں گے۔ جواب میں رحمن ملک نے انکشاف کیا ہے کہ جلاوطنی کے دوران وہ جنرل مشرف کے دور کے دو حاضر سروس جرنیلوں کے ساتھ لندن میں رابطے میں تھے جن سے مل کر انہوں نے مشرف اور بے نظیر کے درمیان ڈیل کرائی تھی۔ رحمان ملک کا کہنا ہے کہ دبئی میں جنرل پرویزمشرف اور بے نظیربھٹوکے درمیان ملاقاتوں میں وہ بھی موجود تھے جبکہ چند عالمی شخصیات جو یہ ڈیل کرا رہی تھیں، ان سے بھی وہ رابطے میں تھے۔
رحمن ملک کا کہنا ہے کہ این آر او پر مذاکرات کرانے والے بھی وہ تھے انھوں نے بے نظیر کے کہنے پر ہی جنرل مشرف اور دیگر قوتوں سے مذاکرات کئے تھے۔ رحمن ملک نے بے نظیر کے سابق پروٹوکول افسر اسلم چوہدری جنہوں نے ان کے خلاف سپریم کورٹ میں ایف آئی آر کے لئے کیس کیا ہوا ہے پر شک کا اظہار کیا ہے ان کے مطابق اسلم چوہدری نے خود بے نظیربھٹو کو قتل کیا یا اسے قاتلوں کا علم ہے۔