کیا اب بھی وہی دو شنبے کو راشن کےذخیرے کھلتے ہیں مٹی کے مرکب، گندم کیا سونے کے برابر تلتے ہیں دوچٹکی چاول کیخاطرچھ چھ دن رلتےگھلتےہیں پتلے’فضل الدینانِ وطن’ موٹے، بدری ناتھانِ وطن
اودیس سے آنے والے بتا کس حال میں ہیں یاران وطن!
کیا مہربہ درتہ خانوں میں ہیں نبیوں کے گودام اب بھی من میں ہے لوبھ کی چاہ وہی اور لوٹ کھسوٹ ہے عام اب بھی! لڑتا ہے کسانوں کی خاطر چھوٹا سا’چھوٹو رام’ اب بھی! اس جاٹ سے کیا دیتے ہیں ابھی وہ ”لالہ رخ لالان وطن”
او دیس سے آنے والے بتا کس حال میں ہیں یاران وطن!
اب بھی جنگی مہنگائی سے مخلوق خدا بے تاب سی ہے! ہر کالی رات غریبوں کی، بے چین سی ہے، بے خواب سی ہے! تمباکو بھی ناپید سا ہے اور ماچس بھی نایاب سی ہے! اور حقہ پینا فرض وطن، ہاں دین وطن، ایمان وطن
او دیس سے آنے والے بتا کس حال میں ہے یارانِ وطن!
کچھ گائوں کی باتیں، کیا اب بھی منگلا پر بادل چھاتا ہے؟ روہتاس میں بیساکھی رت میں میلا اب بھی بھر جاتا ہے؟ بصرے اور سنگا پور سے پلٹن والوں کا خط آتا ہے؟ وہ کھیت میں رستم خان وطن اور گھر میں ”ریشم جان وطن” ّ(شاعر رومان حضرت اختر شیرانی کی ایک مقبول نظم کی تقلید میں ۔ ضمیر)