صدیوں پہلے احادیث مبارکہ میں خراسان اور غزوہ ہند کے بارے پیش گوئیاں کی گئی ہیں۔ افغانستان کی سرزمین کو قدیم زمانے میں خراسان کہا جاتا تھا۔ اس میں پہلے وہ تمام علاقہ شامل تھا جو اب افغانستان ہے جبکہ یہ ملک مشرق میں بدخشاں تک پھیلا ہوا تھا اور اس کی شمالی سرحد دریائے جیحوں اور خوارزم تھے۔ نیشاپور، مرو، ہرات اور بلخ اس کے دارالحکومت رہے ہیں۔ قدیم زمانہ کے خراسان کا جو حصہ ایران میں شامل ہے وہ اب بھی اپنے اصل نام کے ساتھ موجود ہے لیکن اسے تین صوبوں جنوبی خراسان، شمالی خراسان اور رضاوی خراسان میں تقسیم کر دیا گیا ہے جبکہ مالاکنڈ ڈویژن سمیت شمالی پاکستان کے مختلف حصے بھی خراسان کا حصہ رہے ہیں۔ اس وقت پوری دُنیا میں خراسان نام کے کسی ملک کا وجود نہیں ملتا لیکن صدیوں پہلے یہ ملک افغانستان، ایران، پاکستان اور وسط ایشیائی ریاستوں تک پھیلا ہوا تھا۔ یہ تمام وہ علاقہ ہے جس کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ امام مہدی علیہ السلام کی مدد کے لیئے یہاں سے کالے جھنڈے لے کر مسلمان فوجیں چلیں گی اور اُن کا راستہ کوئی نہیں روک سکے گا یہاں تک کہ وہ کالے جھنڈے ایلیاء (بیت المقدس) میں نصب کئے جائینگے جبکہ ایک اور حدیث کے مطابق غزوہ ہند کا آغاز بھی خراسان سے ہی ہو گا۔
موجودہ حالات کو سمجھنا ہے تو خراسان اور غزوہ ہند کی احادیث مبارکہ کو سامنے رکھ کر فیصلہ کیا جائے تو بہت سی باتیں خود ہی کھل کر سامنے آ جائیں گی۔ یہی وہ خطہ ہے جہاں آج اسلام دشمن شیطانی طاقتیں پاکستان، افغانستان اور ایران کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ ان ممالک کے خلاف کارروائی کے لیئے جو پوری دنیا کے غیر مسلم ممالک کا اتحاد و اشتراک ہو گیا ہے اُس کی وجہ بھی شاید یہی ہے کہ یہاں سے انہیں اسلام کی حیاتِ نو کا اندیشہ ہے کیوں کہ خراسان میں بڑی اہم ہستیوں کا جنم ہوا جن کو عام لوگ عرب سمجھتے ہیں۔ مثلاً امام ابوحنیفہ کے قریبی اجداد کا تعلق خراسان سے تھا۔ اسی طرح اسلامی اور مغربی دنیا میں اپنے وقت کے سب سے بڑے طبیب اور حکیم بو علی سینا کا تعلق بلخ سے تھا۔ مولانا رومی کی پیدائش اور تعلیم بھی بلخ ہی میں ہوئی تھی۔ مشہور فلسفی ابوالحسن الفارابی کاتعلق افغانستان کے صوبہ فاریاب سے تھا۔ پندرہویں صدی کے مشہور فارسی صوفی شاعر نور الدین عبدالرحمن جامی کا تعلق افغانستان کے صوبہ غور سے تھا۔ 86ء ہجری میں اسلام کے مشہور جرنیل قتیبہ بن مسلم نے خراسان کو اسلامی حکومت میں شامل کیا، بعد کی اسلامی تاریخ میں اسکو بڑی اہمیت حاصل رہی۔ ساتویں صدی میں ابو مسلم خراسانی نے یہیں سے بنواُمیہ کے خلاف اپنی مہم کا آغاز کیا تھا۔
ممتاز مذہبی اسکالر ڈاکٹر اسرار احمد (مرحوم) فرماتے ہیں کہ خراسان سے حضرت امام مہدی علیہ السلام کی مدد کے لیئے جو لشکر روانہ ہو گا وہ پاکستان اور افغانستان کا کمبائن لشکر ہوگا جبکہ پاکستان کا اس میں بنیادی کردار ہو گا۔ یہ روایت بھی عام ہے کہ خراسان کا لشکر ہوگا تو سفید پوشوں پر مشتمل لیکن جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ ہوگا البتہ غزوہ ہند کے بارے میں یہ معلوم نہیں کہ وہ امام مہدی علیہ السلام کے ظہور سے پہلے ہوگی یا بعد میں لیکن بعض مبصرین کا خیال ہے کہ صلیبی جنگ کی صورت میں کفر اور اسلام کا آخری اور فیصلہ کن معرکہ اسی خطے میں شروع ہو چکا ہے اور اگلے ہی لمحے یہ صلیبی جنگ اپنے طبعی انجام کو پہنچنے کیلئے ارضِ مقدس میں اپنے آخری رائونڈ میں داخل ہونے والی ہے۔ کالے جھنڈوں کی لہراہٹ ارضِ بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ پر براجمان صیہونی قبضہ کاروں کا خون خشک کر رہی ہے جس کی ایک جھلک طالبان کے ہاتھوں چالیس ممالک کی اتحادی فوج کی شکست سے بخوبی لگائی جا سکتی ہے۔ یہ وہی پٹھان یا طالبان ہیں جن کے بارے میں اسرائیل کی ایک تحقیقی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ان کا تعلق بنی اسرائیل کے دس گمشدہ قبائل سے ہے۔ اس طرح پاکستان اور افغانستان کی نصف آبادی یہودی قبیلے کے بچھڑے بہن بھائیوں پر مشتمل ہے۔ افغانستان کے آخری بادشاہ ظاہر شاہ مرحوم برملا یہ اقرار کرتے رہے کہ ان کا تعلق اسرائیل کے پنجامن قبیلے سے ہے۔
اسرائیل کے دس گمشدہ قبائل کے موضوع پر ڈبل ڈاکٹریٹ کرنے والے ملیح آبادی پٹھان نواز ڈاکٹر نوارس آفریدی کی تحقیق بھی یہ ثابت کرتی ہے کہ پشتون اور طالبان کا تعلق بنی اسرائیل سے ہے اور یہ لوگ جب اسرائیل سے بھاگے تو بیشتر نے خراسان میں پناہ حاصل کی۔ خراسان پر ابتداء میں عربوں کی حکمرانی رہی اور بعد میں محمود غزنوی نے ان سے اقتدار چھینا ۔ یہ لوگ چونکہ عرب ممالک سے آ کر یہاں آباد ہوئے اس وجہ سے پٹھانوں اور عربوں کے کئی اوصاف بھی ملتے جلتے ہیں۔ عرب قوم مہمان نواز، بہادر اور اہل قلم ہونے کیساتھ ساتھ دوسری قوموں سے اتنی مرعوب نہیں ہوتی تھی۔ ان چند اوصاف کے علاوہ مجھے کوئی اور اوصاف ان میں زمانہ جاہلیت میں نظر نہیں آتے۔ حیرت کی بات ہے کہ یہی چند اوصاف افغان یا پٹھان قوم میں بھی اسی شدت کے ساتھ پائے جاتے ہیں جبکہ یہ لوگ یہودیوں کی طرح مذہبی رحجانات بھی رکھتے ہیں۔ افغان جنگ و جدل کرنیوالے لوگ ہیں چونکہ انکی نشوونما سخت کوشی، جفاکشی اور مہم پسندی پر ہوئی۔ وہ کسی غیر کی حکومت آسانی سے قبول نہیں کرتے جبکہ مزاج بھی باغیانہ رکھتے ہیں۔ دنیا کہتی ہے کہ افغان سو سال پیچھے پتھر کے زمانے میں جی رہے ہیں جبکہ وہ کہتے ہیں تم سو سال کی بات کرتے ہو ہم چودہ سو سال پیچھے ہیں۔ افغانوں نے یہ ثابت کر دیا کہ جب ایمان لڑنے کے لیئے نکلتا ہے تو ماضی کا قیصر و کسریٰ ہو یا آج کا بش، اوباما یا ٹونی بلیئر سب ڈھیر ہو جاتے ہیں۔
یہ بات طے شدہ ہے کہ اس وقت یہودیوں کی پہنچ دنیا کے تمام بڑے اداروں معیشت، سیاست، تجارت اور میڈیا تک ہے۔ امریکا اور یورپ میں یہودی اس طرح پنجے گاڑھ چکے ہیں کہ وہاں کی حکومتیں بھی انکے ہاتھوں کھلونا بنی ہوئی ہیں۔ امریکا نے روئے ارض پر جہاں بھی فساد فسق و فجور برپا کیا وہ اسرائیلی مفادات سے ہی منسلک ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج بھی صرف افغان اور عرب ہی امریکا اور اتحادیوں کو ٹھکانے لگا رہے ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی حکمت ہر چیز پر غالب ہے اور بے شک اس بات کا علم صرف اُسی کے پاس ہے کہ آئندہ کیا صورتحال پیش آنے والی ہے لیکن خراسان اور غزوہ ہند کے بارے احادیث مبارکہ کے تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان اور ایران کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے میں بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ضرور کوئی حکمت پوشیدہ نظر آتی ہے جبکہ پاکستان کی ایٹمی قوت بھی اُسی ذات کی عنایت کردہ ہے ورنہ شیطانی اتحاد براہ راست کارروائی کرکے اسے نیست و نابود کر دیتا کیونکہ اسوقت اسرائیل صرف پاکستان اور ایران سے ہی خطرہ محسوس کرتا ہے۔دشمن نے اپنے جاسوسی نیٹ ورک کے ذریعے کلمہ طیبہ کے نام پر قائم پاکستان کو توڑنے کیلئے جتنا پیسہ پھینکا، جتنی دہشت گردی کرائی، جتنے بم دھماکے اور خودکش حملے کرائے اگر اتنی دہشت گردی کسی اور ملک میں ہوتی تو وہ کب کا ٹوٹ چکا ہوتا لیکن یہ ملک پھر بھی قائم و دائم ہے اور انشاء اللہ رہے گا۔ آپ گوانتاناموبے سے رہا ہونے والے مسلمان قیدیوں کی رائے جاننے کی کوشش کریں تو بہت سی حقیقتوں کا علم ہوگا کہ وہاں اب بھی زیادہ تر افغانی، عرب اور پاکستانی ہی قید ہیں۔ یہودیوں کے لیئے بہتر یہی ہے کہ وہ بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ سے اپنا غاصبانہ قبضہ ختم کر دیں ورنہ بنی اسرائیل کے یہی بچھڑے قبائل نہ صرف بیت المقدس میں پڑائو ڈالیں گے بلکہ دجال کے پیروکاروں کا کچومر بھی نکال دینگے کیونکہ مسجد اقصیٰ اور بیت المقدس کی حفاظت تمام مسلمان اپنا دینی فریضہ سمجھتے ہیں۔