قارئین آج میں اپنے کالم میں ڈپریشن کے متعلق بہت سی معلومات شامل کرنے جا رہا ہوں ،میرے خیال میں ڈپریشن پاگل پن سے بھی بڑی بیماری ہے ۔یہ ذہنی تنائو سے شروع ہوتی ہے اور پھر انسان کی فیصلہ سازی کی صلاحیت کھا جاتی ہے جس کے بعد انسان کی زندگی کے تمام معاملات درہم برہم ہوکررہ جاتے ہیں اور دن بدن صحت بھی گرتی جاتی ہے ۔زندگی میں انسان کو بہت سے فیصلے کرنے پڑتے ہیں اور بہت سے معاملے ایسے ہوتے ہیں۔جن کوبہتر طریقے سے آگے بڑھانے کے لئے فوری فیصلہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
ٹھیک اسی طرح کا ایک فیصلہ کرنے کی ضرورت ویت نام کی جنگ کے دوران امریکی بحریہ کے طیارہ بردارجہاز(مڈوے) کے کپتان( لارنس سی چیمبر )کو پیش آئی جب ایک ویت نامی فوجی افسر( میجرپنگ لی )اپنی بیوی اور پانچ بچوں کے ساتھ دو نشتوں والے سیسنا طیارے میں کیمونسٹوں سے جان بچانے کی خاطر بھاگ آیا تھا ۔(میجر پنگ لی) مڈوے کے کپتان (لارنس سی چیمبرز) سے طیارہ بردار جہازمڈوے پراپنا جہازاتارنے کی اجازت مانگ رہا تھا ۔کپتان چیمبر کے سامنے اب سوال یہ تھا کہ وہ جنوبی ویت نام کے اس فوجی افسر اور اس کے خاندان کو لے کر آنے والے چھوٹے سے طیارے کو سمندر میں اپنے طیارہ بردار جہاز پر اترنے کی اجازت دے یا نہ دے؟مڈوے جہاز کا سارا ڈیک ہیلی کاپٹروں سے بھرا ہوا تھا۔
ہر ہیلی کاپٹر کی قیمت کروڑوں روپے تھی لٰہذا مسئلہ یہ تھا کہ سیسنا طیارے کو یا پھر ان مہنگے ہیلی کاپٹروں میں سے کسی ایک کو سمندر کی نذر ہوناتھا۔اس فیصلہ طلب لمحے میں کپتان چیمبر نے اپنی فیصلہ سازی کی صلاحیت کو بروے کار لاتے ہوئے پوری ہوشیاری سے کام لیا ۔اس نے فورااپنے سپاہیوں کو حکم دیا جنہوں نے ہیلی کاپٹروں کوڈیک کے ایک طرف دھکیل کرآخر کار سیسنا طیارے کے لئے گنجائش پیدا کردی ۔اب یہ ضروری نہیں کہ انسان کو اس طرح کی مشکل صورت حال کا سامنا ہرروز ہو مگر ماہرین نفسیات بتاتے ہیں کہ ہم سب کو روزانہ درجنوں فیصلے کرنے پڑتے ہیں لیکن جب انسان ڈپریشن کا شکارہو کر اپنی فیصلہ سازی کی صلاحیت کھودیتا ہے تو اس کی زندگی کا سارا نظام درہم برہم ہوکررہ جاتا ہے لیکن ایک مسلمان ہونے کے ناطے میرا ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر مرض کا علاج پیدا فرمایا ہے۔
میرے پاس ڈپریشن کا ایک بہت ہی آسان ،سستا اور پائیدار علاج بھی موجود ہے ۔جسے میں اپنے اوپر آزما ء بھی چکا ہوں ۔وہ علاج کیا ہے یہ میں آپ کو کالم کے آخر میں بتائوں گا۔پہلے بات کرتے ہیں ڈپریشن کی وجوہات اور علامات کی۔ یوں تو انسان سدا خوش رہنے کا خواہش مند ہے لیکن مایوسی اور اداسی بھی زندگی کا حصہ ہیں۔ جبکہ میڈیکل سائنس کہتی ہے کہ جب اداسی اور مایوسی کا غلبہ اس قدر ہوجائے کہ روز مرہ کے کاموں میں خلل پڑنا شروع ہوجائے توڈاکٹر اس حالت کوڈپریشن کہتے ہیں ۔ڈپریشن کے مرض میں مبتلا مریض کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ڈپریشن پاگل پن نہیں ہے ۔ڈپریشن بھی شوگر اور بلڈ پریشر کی طرح ایک جسمانی بیماری ہے جس کا مناسب اور بروقت علاج کروانا بے حد ضروری ہے ۔ڈاکٹر تو کہتے ہیں کہ ڈپریشن پاگل پن نہیں ہے لیکن مجھے لگتا ہے کہ ڈپریشن پاگل پن کی آخری سٹیج ہے اس لئے ڈپریشن کے مرض سے جان چھوڑانا بھی بہت ضروری ہے۔
قارئین اس سے پہلے کہ ہم ڈپریشن کے متعلق اپنی کوئی رائے قائم کریں ڈپریشن کومیڈیکل سائنس کی نظر سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ میڈیکل سائنس کے مطابق ڈپریشن کی علامات کچھ یوں ہیں۔ (1)مسلسل طبیعت کا بوجھل پن یا اداسی(2)چڑاچڑاپن اور بات بات پر رونا(3)بھوک اور ہاضمہ کی خرابی ،بھوک کا کم یا زیادہ لگنا ۔(4)نیند کی خرابی نیند کا کم یا زیادہ آنا(5)گبھراہٹ اور گیس کی شکایت (6)تھکاوٹ ،سستی کا احساس (7)احساس ندامت ۔احساس پشیمانی اور احساس کمتری(8)توجہ کے ارتکا ز اور توجہ برقرار رکھنے میں دشواری(9)زندگی سے اکتاہٹ ،موت کی خواہش اور خودکشی کی کوشش(10)بدن کے مختلف اعضا ء میں درد (11)یاداشت میں کمی (12)کچھ اچھا نہ لگنا (13)منشیات استعمال کرنے کی طرف رجحان (14)کمزوری اور قوت میں کمی ڈپریشن کیوں ہوتی ہے اس سوال کا جواب جاننے کے لئے مجھے ایک ڈاکٹرکے پاس جانے کی ضروت پڑتی اگر میرے پاس اپنے دوست ڈاکٹر محمد اکرام کا فون نمبر نہ ہوتا ۔
ڈاکٹر محمد اکرام ماہر نفسیات تو نہیں ہیں لیکن پھر بھی ان سے بات کر کے مجھے اپنے سوال کا جواب مل گیا کیونکہ انھوں نے مجھے ڈپریشن کے بارے میں بڑی تفصیل سے بتایا۔ڈاکٹر محمد اکرام نے مجھے بتایا کہ اگرچہ ابھی تک میڈکل سائنس ڈپریشن کی وجوہات کو ٹھیک طرح سے نہیں سمجھ پائی ،تاہم خیال کیا جاتا ہے کہ دماغ میں چند رطوبتوں کی کمی سے ڈپریشن ہوجاتا ہے ۔یہ خود بخود بھی ہوسکتا ہے یا پھر کسی واقعے یا سانحے کے ردعمل کے طور پر بھی ہوسکتا ہے۔میں نے ڈاکٹر اکرام سے سوال کیا کہ ڈپریشن سے کس طرح بچاجاسکتا ۔ڈاکٹر اکرام کیونکہ میرے اچھے دوست بھی ہیں اس لئے ان کو میرا سوال سن کر میری فکر ہونے لگی وہ کہنے لگے پہلے تم مجھے یہ بتائو کہ تم ڈپریشن کے بارے میں اتنی تفصیل سے کیوں پوچھ رہے ہو کہیں تمہیں یہ وہم تو نہیں ہوگیا کہ تم ڈپریشن کے مریض ہو اگر ایسا ہے تو امتیاز صاحب سب سے پہلے یہ سن لو کہ جس شخص کو ڈپریشن ہو جائے اس کا علاج تو ممکن ہے لیکن جس کو وہم ہوجائے اس کا علاج نا ممکن ہوجاتا ہے۔
میں نے ان کو یقین دلایا کہ اللہ تعالیٰ کے کرم سے مجھے نا تو ڈپریشن ہے اور نا ہی وہم ہوا ہے بلکہ میں تو اس مرض کے بارے میں اس لئے جاننا چاہتا ہو ں کہ مجھے اس موضوع پر کالم لکھنا ہے ۔جس کے بعد ڈاکٹر اکرام نے مجھے بتایا کہ اگر کسی کو ڈپریشن ہو جائے تو اسے فوراّ ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہئے کیونکہ ڈپریشن لاعلاج مرض نہیں ہے ۔اس کا باقاعدہ اور مکمل علاج ممکن ہے ۔صرف اس کو دوسرے امراض کی طرح جسمانی مرض سمجھیں ۔اپنے خاندان کے لوگوں اور دوستوں سے گہرے رابطے میں رہیں ۔اپنی پریشانیاں اور مشکلات سے ان کوآگاہ رکھیں۔تنہائی سے بچیں ۔اپنے روزمرہ کے معمولات پرسختی سے عمل پیراہونا چاہئے۔باقاعدگی سے ہلکی پھلکی ورزش کرنی چاہئے۔ڈاکٹر صاحب نے بتایا اگر ڈپریشن کامریض اپنے کھانے میں پالک،مولی،مچھلی،بادام اور چاکلیٹ شامل کرلے اور ڈپریشن زدہ ماحول سے باہر نکلنے کی کوشش کرے تو چند دن میں ہی وہ با لکل تندرست ہوسکتا ہے۔
قارئین یہ تھے تو ڈاکٹر اکرام کے مفید مشورے اب آئیے میں آپ کو ڈپریشن کا وہ علاج بتاتا ہوں جس کا وعدہ کیاتھا وہ علاج ہے کہ آپ روزانہ پانچ وقت کی نماز باقاعدگی سے ادا کرنا شروع کردیں۔انشاء اللہ نہ صرف ڈپریشن بلکہ اور بھی بہت سی بیماریاں آپکی جان چھوڑ دیں گی۔تحریر:امتیازعلی شاکر