ملکی تاریخ میں چھبیس اپریل کا دن اُس وقت انتہائی اہمیت کا حامل بن گیا جب سپریم کورٹ آف پاکستان نے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو توہینِ عدالت کا مرتکب قرار دیکر عدالت برخاست ہونے تک کی سزا سنا دی۔ ججز کے کمرہ عدالت سے جاتے ہی وزیراعظم کی سزا بھی پوری ہو گئی اور یوں انہوں نے عدالت کے اندر ہی تیس سیکنڈ پر مبنی سزا کاٹی حالانکہ سپریم کورٹ نے جس دن توہینِ عدالت کیس کا فیصلہ محفوظ کیا اخباری اطلاعات کے مطابق اُسی دن سے نئے مہمان کی آمد کیلئے اڈیالہ جیل اور تھانہ سیکرٹریٹ میں صفائی اور سکیورٹی کے انتظامات بھی مکمل کر لیئے گئے تھے ۔ میرے لئے یہ حیرت کی بات ہے کہ اعلیٰ عدلیہ ایک منجھے ہوئے سیاست دان کے ساتھ کامیاب ”سیاست” کھیل گئی کہ اُسے ملزم سے مجرم بھی ڈیکلیئر کر دیا، سزا بھی سنائی اور اپنی ہی موجودگی میں اس پر عملدرآمد کو بھی یقینی بنایا۔ جس کے بعد گیلانی صاحب ایک سزا یافتہ مجرم بن گئے جبکہ اس فیصلے کے پیچھے حکمت یہ معلوم ہوتی ہے کہ چوں کہ گیلانی صاحب کو اپیل کا حق حاصل ہے اور اپیل کے حق کے دوران وہ وزارتِ عظمیٰ کے عہدے پر فائز رہ سکتے تھے اس لیئے وہ جیل میں جا کر سیاسی فائدے ضرور حاصل کرتے جبکہ پیپلز پارٹی حسبِ سابق سیاسی شہید بننے کے لیئے ریلیاں نکالتی مگر عدلیہ نے بہت ہی دانائی سے یہ ساری چال اُلٹ دی۔
محض تیس سیکنڈ کی سزا سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کا اگر جذباتی بنیادوں پر جائزہ لیا جائے تو یقینا اس فیصلہ پر مایوسی ہی نظر آئے گی اور ذہنوں میں یہ سوال اُٹھتا ہے کہ کیا توہینِ عدالت کی سزا محض تیس سیکنڈ ہوتی ہے؟ کیا سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے عوام کو یہ پیغام نہیں ملے گا کہ پاکستان میں قانون صرف غریب عوام کیلئے ہے جبکہ اشرافیہ کیلئے صرف علامتی سزائیں ہی مختص ہیں مگر جذبات سے ہٹ کر جائزہ لیا جائے تو یہ راز کھلتا ہے کہ اگر عدالت اس جرم کی زیادہ سے زیادہ سزا چھ ماہ سنا بھی دیتی تو کیا اس پر عملدرآمد ہوتا؟ کیونکہ عدالتوں کا کام محض سزا سنانا ہوتا ہے جبکہ ان سزائوں پر عملدرآمد کرانا حکومتی اداروں کی ذمہ داری ہوتی ہے اور اگر عملدرآمد نہ ہوتا تو کیا عدالت اپنے اس عدالتی حکم کا بھی مذاق اڑانے کا موقع دیتی؟ اگر حکومت مجرم کو گرفتار نہ کرتی تو بھی عدالتی فیصلے کا مذاق اُڑتا یا پھر صدر مملکت عدالتی کی طرف سے دی گئی سزا معاف کر دیتے تو اس صورت میں بھی عدالت کا مذاق اڑتا جبکہ یہ بھی ممکن تھا کہ حکومت پی ایم ہائوس کو ہی سب جیل قرار دے دیتی اور گیلانی صاحب پی ایم ہائوس کی سب جیل میں سزا کاٹتے اور وزیراعظم کے فرائض بھی انجام دیتے۔ یہی وجہ ہے کہ عدالت نے ان سب ممکنہ خدشات کے پیش نظر ایک بہترین فیصلہ سنایا ہے۔ بے شک یہ فیصلہ عوامی اُمنگوں کے مطابق نہ سہی مگر اس فیصلے کے نتائج اس قدر بڑے ہیں کہ کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا۔
وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی جمعرات کی صبح جب سپریم کورٹ کیلئے روانہ ہوئے تو اُنکے چہرے کے تاثرات بتا رہے تھے کہ وہ اور اُن کی پارٹی کے اراکین ممکنہ طور پر عدالت سے ملنے والی سزا کیخلاف بھرپور تیاری میں ہیں لیکن تجزیہ کاروں اور ماہرینِ قانون کے مطابق ججز صاحبان نے اپنے مختصر فیصلے کے ذریعے شہادت کا شوق رکھنے والوں کو شہید بھی نہیں کیا اور غازی بھی نہیں رہنے دیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق وزیراعظم گیلانی جیسے ہی کمرہ عدالت میں پہنچے تو نو منٹ بعد سات رکنی بینچ کے فاضل جج صاحبان بھی کمرہ عدالت میں آ گئے۔ تمام ججز صاحبان نے پہلے کیس کے مختصر فیصلے پر دستخط کئے جس کے بعد بینچ کے سربراہ نے وزیراعظم کے وکیل بیرسٹر اعتزاز احسن کو اپنے مؤکل کے ہمراہ روسٹرم پر آنے کو کہا۔ جب بیرسٹر اعتزاز احسن اپنے مؤکل کے ہمراہ روسٹرم پر پہنچے تو بینچ کے سربراہ نے مختصر فیصلہ پڑھنا شروع کر دیا۔اس مختصر فیصلے میں ججز صاحبان نے وزیراعظم کو مجرم قرار دیتے ہوئے عدالت کے برخاست ہونے تک کی سزا سنا دی اور اسکے ساتھ ہی خود بھی نشستوں سے اُٹھ کر چلے گئے۔ اس دوران مجرم وزیراعظم پہلے مسکرائے اور پھر حیرانگی میں اپنے وکیل سے اس فیصلے بارے دریافت کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ آپ کو عدالت کے برخاست ہونے تک کی سزا سنائی گئی تھی جو آپ نے پوری کر لی ہے۔ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ اس قدر ذہانت پر مبنی تھا کہ اس نے حکومت سمیت آئینی ماہرین کوبھی چکرا کر رکھ دیا ہے۔ کچھ ایسی ہی حیرانگی اُ س وقت بھی ہوئی تھی جب اعتزاز احسن نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ اپنے مؤکل کا کیس ایک روپیہ فیس کے عوض لڑ رہے ہیں۔
سپریم کورٹ کی جانب سے وزیراعظم گیلانی کے خلاف یہ ایک علامتی سزا ہے لیکن اس فیصلے نے حکومت کے لیئے کئی مشکلات کھڑی کر دی ہیں اور آئندہ ہفتوں یا مہینوں میں انہیں نااہل بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ اب اپیل ہونے تک چوں کہ وہ وزیراعظم رہیں گے لیکن اپیل مسترد ہو جانے پر وہ غالباً وزارتِ عظمیٰ کے عہدے سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ قانونی تقاضے کے مطابق چونکہ ایک ممبر قومی اسمبلی کیلئے عدالت سے کسی جرم میں سزا یافتہ نہ ہونا ضروری ہے اور یوں موجودہ فیصلہ کی رو سے وزیراعظم گیلانی مجرم اور سزا یافتہ قرار پائے جانے کے تحت اسمبلی کی رکنیت سے محروم ہونے کیساتھ آئندہ پانچ سال کیلئے اُن کی سیاست پر بھی پابندی لگ سکتی ہے جبکہ ایم این اے کی سیٹ ختم ہونے کی صورت میں وزارتِ عظمیٰ پر بھی ان کا استحقاق ختم ہو جائیگا۔ سزا دیئے جانے کے بعد حکومت کہتی ہے کہ وہ اس فیصلے کیخلاف اپیل کریگی لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس معاملہ میں مجرم کو سزا مل گئی ہو اور وہ سزا بھگت بھی چکا ہو تو اس مجرم کو اس طرح کس بات کا حق مل جائیگا کہ وہ اس فیصلے کیخلاف اپیل دائر کرے۔ کئی حلقوں میں اس بات پر بھی بحث ہو رہی ہے کہ سپریم کورٹ اس معاملہ میں اپیل قبول کرے گی بھی یا نہیں بہرحال ماہرینِ و مشیرانِ قانون اس بارے میں بہتر جانتے ہیں لیکن ہمارے ہاں یہ رواج بن چکا ہے کہ کسی کے خلاف بھی فیصلہ ہو جائے تو وہ قوم پرستی یا پارٹی کا کارڈ کھیلنے لگ جاتا ہے اور اگر جیت جائے تو وہ انصاف کی فتح ہوتی ہے۔