صحافت کو ریاست کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے۔ صحافی کو بددیانت نہیں ہونا چاہیئے۔ یہ پیغمبری پیشہ ہے۔ جو صحافی اپنے پیشے سے بددیانتی کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے زندگی میں ہی عبرت بنا دیتا ہے۔ صحافیوں کودرپیش مسائل پر کڑنے والا شخص حامدمیربین الاقوامی شہرت یافتہ اینکرپرسن ہونے کے باوجودخود کو ایک کارکن صحافی ہی خیال کرتا ہے۔ حامد میر جو کسی لگی لپٹی کے بغیر سچ بول کر مخاطب کو حیران کر دیتا ہے۔ حامد میر کے مطابق بدقسمتی سے آج پراپرٹی ڈیلر اور سیٹھ لوگ صحافت کے میدان میں کود پڑے ہیں۔ ایک اخباری جریدے کو انٹرویومیں کہتے ہیں کہ میڈیا میں بھی منافقت ہے صرف سچ پر چلتا تو کب کا پھڑک چکا ہوتا۔ قلم کی عصمت ماں بہن کی عصمت سے بھی ذیادہ قیمتی ہے نوجوان صحافیوں کو چاہئے کہ وہ اخبار بدلیں شعبہ بدلیں، اردو سے انگلش میڈیم میں چلے جائیں لیکن کبھی قلم کی عظمت کو فروخت نہ کریں۔
دوسری طرف کل ہی کی بات ہے کہ میں اپنے دوست اور سینئرصحافی حافظ عبدالرزاق کے ساتھ پریس کلب کے کمپیوٹر سیکشن میں بیٹھا تھا کہ ایک صاحب آئے اور حافظ عبد الرزاق سے کہنے لگے لوجی تہاڑا بھراوی صحا فی بن گیا جے حافظ عبدالرزاق نے پوچھا کہ بھائی کون سے اخبار میں کام کر رہے ہو تو ان صاحب نے اپنی شلوارکی جیب میں ہاتھ ڈالا اور ایک پریس کارڈ نکال کر کہا کہ خود ہی دیکھ لو۔ حافظ عبدالرزاق نے کہا مبارک ہو اب تو ہماری چائے بنتی ہے ناں وہ صحافی صاحب چائے لینے گئے تو حافظ عبدالرزاق میری طرف ہنستے ہوئے بولے کہ ساحر صاحب یہ ہے آج ہماری صحافت کا معیار ان صحافی صاحب کو یہ تک نہیں پڑھنا آتا کہ اس کوچند سو روپے کے عوض کس اخبار کا کارڈ جاری ہوا ہے۔ کاش پریس کارڈ جاری کرنے والے صاحبان یہ بھی بتا دیا کریں کہ صحافت ایک مسلسل امتحان ہے۔ جو ہر لمحہ اور روزانہ صحافیوں کونہ صرف پاس کرنا پڑھتا ہے بلکہ تلوار سے تیز دھار کہلانے والی اور تیر کمان سے نکل کر تیر کی مناسبت رکھنے والی خبر سے بھی نبردآزما ہونا پڑتا ہے۔
راقم قلم اٹھانے پر اس لئے مجبور ہوا کہ آج جوحال صحافت کا ہو رہا ہے اگر یہی سلسلہ رہا تو آنے والے دنوں میں ریاست کا یہ چوتھا ستون تباہی کی طرف نہ صرف سفر کریگا، بلکہ صحافت میں بھی لوگ انقلاب کی باتیں کریں۔ آج کے دور میں جب پاکستان کی صورت حال اس قسم کی ہے کہ ہر فرد صحافت کا لبادہ اوڑھ کر دوسرے کو اپنے زیر سایہ کرنے کی سوچ رکھتا ہے۔ صحافیوںکو بڑے طاقتور لوگوں کو ناراض کر کے جینا بھی پڑتا ہے۔ ان کو سب سے بڑا امتحان اپنے ہی پیشے کے ان دوستوں کے ہاتھوں دینا پڑتا ہے۔ جو جونیئر کو آگے بڑھتا دیکھ نہیں سکتے اور وہ ان ظالموں کا بڑے پن میں جن کے ہاتھ نہ صرف اس قوم کی لوٹی ہوئی دولت سے رنگے ہوتے ہیں۔ بلکہ اپنا وقت نکالنے میں یہ ماہر افسران تصورکئے جاتے ہیں۔ میں بھی اسی کا شکار اپنے دوستوں سے ہوا ہوں۔ لہذا کسی اور سے گلہ کیا۔ جس معاشرے میں ہم رہتے ہیں۔ اس معاشرے کا ہر تیسرا فرد آج اپنے کالے دھندے کو سفید اور اپنی کرتوتوں کو معاشرے کی آنکھ بنانے پر لاکھوں روپے لگانے کو تیار ہے۔ صحافی بلا شبہ معاشرے کی آنکھ ہیں مگرآج اس آنکھ کو 10نمبرکی عینک لگا کرسرعام اس کا سودا کیا جا رہا ہے۔ ملک بھر میں رجسٹرڈ صحافیوں کی تعداد20سے 25ہزار بتائی جاتی ہے۔ جن کے معاش کا مکمل انحصار صحافت پر ہے۔ یہ وہ صحافی ہیں۔ جو دفاتر میں ڈائریکٹ شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ مگر فیلڈ میں موجود صحافی جو علاقائی سطح پر کام کر رہے ہیں۔ ان کی تعداد کو شمار کرنا کافی مشکل کام ہے۔ کیونکہ ہر تیسرا فرد کسی نہ کسی اخبار کا کارڈ سینے پر سجائے معاشرے میں اس عظیم پیشے کی خوب آتما رول رہا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق 50فیصد وہ صحافی ہیں جو ڈائریکٹ اداروں کے تنخواہ دار ہیں اس وقت معاشی بدحالی کا شکار ہیں۔ مگر دوسری طرف اداروں کو چھوٹے سے چھوٹے مسائل پر خبریں دینے والے وہ صحافی جو دن رات محنت کر کے اپنے مضافات کی خبریں اپنے اداروں کو بھیجتے ہیں مگر ان کا کوئی بھی پر سان حال نہیں ہے۔ یہ لوگ بغیرکسی معاوضے کے خبر کو اس کی اصل اہمیت کے مطابق اداروں میں بھیجتے ہیں۔ جس کے بعد ان کے ہاتھ تو کچھ نہیں لگتا مگرادارے اس سے بہت کچھ کماتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ہائی پوٹینشن اور بلڈپریشر جیسے موذی امراض جو صحافیوں میں سب سے ذیادہ پائے جاتے ہیں اور جو کسی بھی وقت جان لیوا ثابت ہو سکتے ہیں۔ پھر بھی لوگوں تک خبر پہنچانے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ مگراداروں تک پہنچانے میں چاہے وہ خبر پرنٹ میڈیا کی ہویا الیکٹرونک میڈیا کی 80سے 90فیصد لوگ ایسے ہیں جو اپنی جنم کنڈلی پر چھائے ہوئے کرپشن، بدعنوانی، بلیک میلنگ اور سیاہ دولت کو سفید بنانے کے لئے ریاست کے چوتھے ستون کی چھاؤں میں بیٹھ کر بہتی گنگا میں خوب ہاتھ دھونے کا دھندہ کر رہے ہیں۔ علاقائی سطح پراگرصحافیوں کی بات کی جائے تو شیخوپورہ کو سامنے رکھتے ہوئے بات کرونگا۔
یہاں لگ بھگ ایک ہزار کے قریب صحافی بھائیوں کی تعداد ہو گی جو مختلف اخبارات، ٹی وی چینلز اور نیوز ایجنسیزسے وابستہ ہونگے۔ میرے نقطہ نظرکے مطابق (اختلاف رائے کا قارئین کوحق حاصل ہے) چار قسم کے لوگ شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ اول طبقہ ان لوگوںکا ہے جن کے پاس اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا سب کچھ ہے مگر شوق صحافت نے ان کو اس میدان میں کودنے پر مجبور کیا دوسرے وہ لوگ ہیں جو اپنی کسی نہ کسی کاروباری کرپشن کو چھپانے کے لئے صحافت کا جھنڈا اٹھائے میدان عمل میں ہیں۔ اس کے بعد تیسری قسم ان افراد کی ہے جن کا اوڑھنا بچھونا صرف صحافت ہے۔ بس بند لفافے اٹھائے، تھانے کچہریوں کی چودھراہٹ کی کسی نہ کسی محکمہ سے ٹیکہ لگایا اور عزت کے ساتھ خوب روزی کمائی اور اگر کوئی اس میں حائل ہوا وہی سب سے برا اور اس کا دشمن ہو گا۔ چاہے وہ اس شعبے میں اسی کا اپنا ساتھی ہی کیوں نہ ہو۔ چوتھا وہ طبقہ ہے جو پڑھا لکھا اور جستجوکرنے کا عادی ہے جو اگر کسی ٹی وی چینل یا اخبار سے منسلک ہو جاتا ہے توپھراس کی شامت آجاتی ہے۔ کہ وہ خبریں لائے، سٹوریاں چھاپے اور اس کی سزا تمام صحافی برادری میں اس کا بائیکاٹ کر کے پریس کلب میں حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے اس کی ممبرشپ تک بھی نہیں کی جاتی۔ بلکہ صحافتی شعبے کے ٹھیکیداروں میں یہ بدنام زمانہ کا تغمہ بھی وصول کرتا ہے۔ اپنے اعمال کوسامنے رکھتے ہوئے ہمیں سوچنا چاہئے کہ ہمیں آخر کیا چاہئے ہمیشہ کا ٹھکانہ صرف اور صرف چندگززمین، سارا مال جودنیا میں دونوں ہاتھوں سے لوٹا ادھرہی رہ جانا ہے ہمیں کوئی یادبھی نہیں کریگا۔ یہاں تک کہ ہمارے اپنے ہی ہماری قبروں کوبھول جائینگے۔خداکے کے لئے صحافت کوزردصحافت میں تبدیل مت کریں۔اس کے اصل وقار اور دبدبہ کو قائم رکھنا ہو گا۔ پاکستان میں صحافت کو ریاست کا چوتھا ستون قرار دیا جاتا ہے۔ مگر یہ عملا چند افراد کے لئے ٹورٹپے، منفعت بخش کاروبار اور مقامی سطح پر سیاہ کو سفید کرنے کے علاوہ کچھ حیثیت نہیں رکھتا نظر نہیں آتا۔ میری اس رائے سے بعض لوگ اختلاف بھی کرینگے۔ جو ان کا حق ہے مگر میرے دل کی آواز اور ضمیر کا بوجھ اس قلم کے ذریعے آپ تک پہنچانا میرا فرض تھا۔ جو پورا کر رہا ہوں صحافیوں کو معاشرے کی آنکھ کان اور ذبان بھی کہا جاتا ہے۔ مگر معاشرے کی آنکھ سے دیکھے اور کان سے سنے ہوئے سچ کو سننے کی صلاحیت بہت کم لوگوں میں ہوتی ہے مگر دوستوں یاد رکھنا یہ سب حکمران اور افسران اسی کو حقیقی صحافت مانتے ہیں۔ جو ان کو پسند ہو باقی سب زرد صحافت میں شمارکرتے ہیں۔
حالانکہ یہی لوگ نجی محفلوں میں ان حقائق کا اعتراف بھی کرتے ہیں۔ مگرمعاشرے کے سامنے اس سچ کو زرد صحافت کا نشان دیا جاتا ہے۔ آج کے دورمیں کرپشن، رشوت خور اور بددیانتی سے لتھڑے ہوئے آج کے محتسب کس منہ سے احتساب کا نام لے سکتے ہیں۔ بس اتنا یاد رکھیں کہ ہمارے ہاتھ میں ریاست کے چوتھے ستون کا اٹھائے رکھنے کی چابی ہے اور اس چابی کو چند سکوں اور جھوٹی حرام کی کمائی کو تحفظ دینے کے لئے مت بیچ دینا یہی صحافت کا اصل پیغام ہے۔