پاکستان کے صدر آصف علی زرداری اور من موہن سنگھ کی تاریخی ملاقات اور دونوں سربراہوں کی میڈیا کے سامنے تمام متنازعہ امور کو ڈائیلاگ اور برادرانہ طریقے سے حل کرنے کے وعدوں کی مار بہاروں کی کی برسات اور خطے میں امن و سکون قائم کرنے کے بیانات کی جھنکار کی صدائے بازگشت ابھی تک گونج رہی ہے۔ پاک بھارت سربراہوں کی ملاقات پر سکھ چین کی بانسری بجانے والے قلمی دانشوروں ماہرین اور تھنک ٹینکس کے تبصروں زائچوں اور قیافیوں کی ابھی تک سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی کہ بھارت نے19 اپریل کو بین الابراعظمی میزائل اگنی5 کا تجربہ کرکے انڈو پاک اور جنوبی ایشیا میں امن و امان کے مستقبل کے سامنے سوالیہ نشان لگادیا۔یوں بھارتiسی بی ایم بین الابراعظمی بیلسٹک میزائل کلب کا ممبر بن گیا ہے جس میں پہلے روس امریکہ فرانس اور چین شامل ہیں۔ بھارتی حکومت اگنی 5 کے کامیاب تجربے پر شاداں و فرحاں ہے۔وزیردفاع سن سورت سنگھ نے اکڑفوں دکھائی کہ اگنی نے دنیا کا کھیل تبدیل کردیا۔ انڈین منتری من موہن سنگھ نے فخریہ انداز میں ہاہاکار مچائی کہ اب دشمن کو بھارت پر کسی قسم کی جارہیت مسلط کرنے سے پہلے سوبار سوچنا پڑے گا۔ اگنی فائیو کو بھارت کے مشرقی ساحلی علاقوں سے فائر کیا گیا۔
اگنی5000 کلومیٹر تک ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اگنی کوہدف تک پہنچنے کی خاطر تین مدارج سے گزرناپڑتا ہے۔اسکی اونچائی پندرہ میٹر جبکہ وزن پچاس ٹن ہے۔ اگنی کی سفاکیت اور قوت کا اندازہ اس نقطے سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہ1.5 ٹن کے ایٹمی وار ہیڈز کو ہدف تک پہنچانے میں کامیاب رہتا ہے۔ بھارتی سائنسدان انڈیا کے خونخوار ویپن ریزروائرز میں ایک اور ڈریکولائی ہتھیار کا اضافہ کرکے اچھل کود میں مصروف ہیں۔ انڈین نیوز ایجنسی کے مطابق بھارتی سائنس دان اس وقت بوکھلا اٹھے جب اگنی کو لانچنگ پیڈ پر فکس کیا جانا تھا۔کسی تکنیکی خامی کے کارن اسکی روانگی میں ایک دن کی تاخیر ہوگئی۔
اگنی میزائل کا ہدف بحیرہ ہند میں اسٹریلیا اور مڈساغر کے درمیان فکس تھا۔ سائنسدانوں کے مایوس اور کملائے ہوئے چہروں پر اضطراب و بیتابی کی پرچھائیاں ہویدا تھیں جو اس وقت20 منٹ کے بعد خوشیوں میں رنگ گئیں جب اگنی نے ہدف کو چکنا چور کردیا۔ موہن جی نے مادھوری سٹائل میں دیدنی و خوشی سے جھوم اٹھے کہ کوئی ہماری قومی سلامتی کو نظر بد سے نہیں دیکھ سکتا۔ انڈین وزارت دفاع کے مشیر وی کے سرسوت نے نہرو کی بانسری والے سر نکالے وہ نہرو کی طرح کچھ زیادہ ہی بہک گئے وہ چلائے بھارت نے اج تاریخ رقم کی ہے ہم دنیا کی 5 ویںمیزائل طاقتوں میں شامل ہوچکے ہیں طاقت طاقت کا احترام کرتی ہے۔
سرسوت کا فرمان انکی فکر و نظر سے درست ہوسکتا ہے مگر تاریخ کسی اور طرف اشارہ کررہی ہے۔ باباگورونانک نے کہا تھا اپ نفرت سے نفرت اور انسانیت کش جوہری ہتھیاروں کی بے رحمانہ بھرمار سے نفرت کو ختم نہیں کرسکتے۔ بڑی طاقت یا بڑی جمہوریت بننے اور عوام کو اپنا تابع فرماں بنانے کی خاطر روح کو بدی کی بجائے نیکی اور شریر کی بجائے علم رواداری سے فتح کیا جاتا ہے۔ بھارت میں اگنی کی تخلیق پر فتح کے شادیانے بج رہے ہیں مگر دوسری طرف چین اور پاکستان میں بے چینی پائی جاتی ہے۔ بھارت کا موقف رہا ہے کہ وہ ایٹمی جنگ کی صورت میں حملے میں پہل نہیں کریگا مگر یہ تو بتایا جائے کہ پھر اربوں ڈالر کے وارہیڈز لے جانیوالے میزائل کیوں بنائے جارہے ہیں۔ پاکستان ایران یا کوئی مسلم ملک بھارت کی طرح ڈنکے کی چوٹ پر میزائل کا تجربہ کرتے تو یو این او یورپی یونین امریکی اشارے پر پہلی فرصت میں اقتصادی مالیاتی اور تجارتی پابندیاں عائد کرچکے ہوتے ۔ امریکہ ماضی میں رٹ لگاتا رہا ہے کہ پاکستان اور بھارت جنوبی ایشیا میں دو حریف ایٹمی طاقتیں ہیں۔امریکہ دونوں میں جنگ نہیں ہونے دیگا۔ تاہم امریکہ بھارت کو اپنا جوہری پارٹنر بنا کر اپنی غیر جانبداری کی نفی کرچکا ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ امریکہ اور یورپی یونین اگنی کے ایشو پر نہ صرف مذمت کرتے بلکہ وہ لیپا پوتی کی بجائے دنیا کو راکھ و خون کی بجائے گلستان امن بنانے کی سعی کرتے۔ امریکہ نے مذمت کیا کرنی تھی الٹا وائٹ ہاوس نے بھارت کو مبارکباد دی۔ امریکہ کی باچھیں کھل اٹھیں کیونکہ اگنی5 چین پر تباہ و بربادیوں کی سنگ باری اور موت کی برف باری کرنے کی صلاحیتوں سے متصف ہے۔ گو کہ بھارت نفی کرچکا ہے کہ اگنی کو چائنا کے مقابل بنایا گیا ہے تاہم امریکی محقق سائمن ڈینور کے واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والے ارٹیکل بھارت کا اگنی میزائل بیچنگ پہنچ سکتا ہے میں ساری حقیقت طشت ازبام ہوچکی کہ بھارت امریکہ چین کے خلاف ایک ہی تھالی کے چٹے پٹے ہیں۔ سائمن لکھتے ہیں کہ چین خاصا پریشان ہے کہ اگنی اسکے خلاف استعمال ہوگا ۔ امریکہ نے بھارت کو گلوبل ہیوی ویٹ کہنا شروع کردیا ہے جسکے پس چلمن اصل راز تو یہ ہے کہ اگنی کو چین کے ہم پلہ قرار دینا ہے۔
پاکستان اور چین اگنی کی امد کے بعد سخت متفکر ہیں۔ چین دنیا کی ابھرتی ہوئی سیاسی معاشی دفاعی قوت ہے چین کئی میدانوں میں امریکہ کو چیلنج کرسکتا ہے۔ امریکہ اپنی حریف ترین سپرپاور چین کو ایک پل کے لئے برداشت نہیں کرسکتا۔امریکہ نے چین کا مکو ٹھپنے کے لئے بھارت کو فرنٹ لائنر کے طور پر استعمال کرنے کا خواہش مند ہے۔12 اپریل کو وائٹ ہاوس کے ترجمان نے کہا کہ بھارت امریکہ دوستی روز بروز پروان چڑھ رہی ہے۔یہ بیان بھی پاکستان چین کے خلاف دونوں کے گھٹ جوڑ کی غمازی کرتا ہے۔ امریکہ دراصل پاکستان اور چین کے خلاف بھارت کے دست بازو مضبوط کررہا ہے۔ دنیا میں بھارت اسلحہ خریدنے والی ریکنگ میں پہلا نمبر لے چکا ہے یوں اگنی نے جنوبی ایشیا میںہتھیاروں کی نئی دوڑ کا انعقاد کردیا۔ شائد بھارت1962 والی شکست کا داغ بھلا نہیں پایا جب چین نے اسے چت کرڈالا تھا۔ چین نیوکلیر ٹیکنالوجی میں امریکہ و بھارت کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ چائنا نے اپنے نیوز پیپر گلوبل ٹائمز میں بھارت کو عندیہ دیا ہے کہ وہ اپنی حدود قیود میں رہے۔
چینی ترجمان نے شکوہ کیا کہ امریکی اور مغربی اتحادی بھارت کو ہر قسمی چھوٹ دے رکھی ہے مگر بھارت کو اپنی فوجی قوت کے مغالطے میں نہیں رہنا چاہیے۔ بھارت اور امریکہ چین کے علاوہ پاکستان کی اسلامی ایٹمی طاقت کو غتر بود کرنے کی سازشیں کرتے رہتے ہیں۔ پاکستان کو عظیم فلسفی گورونانک کے قول کی روشنی میں ایسے غیر یقینی اور خطرناک مراحل میں امریکہ کی بجائے چین کے ساتھ الحاق کرنا چاہیے۔ گورونانک نے کہا تھا کہ اگنی کے اگے 100سال تک سرجھکائے رہنے سے تو بہتر ہے کہ کسی وفادار کی صحبت اختیار کرلینی چاہیے۔ تحریر : روف عامر پپا بریار