دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر 1949میں نیٹو وجود میں آئی۔ اس وقت سے آج تک اِنکی چوبیس چوٹی کی کانفرنسیں ہو چکی ہیں۔ آخری چوٹی کی کانفرنس نومبر 2010میںلزبن میں ہوئی تھی اور اب پچیسویں کانفرنس 21-20 مئی کو امریکہ کے شہر شکاگو میں ہونیوالی ہے۔ واشنگٹن سے باہر کسی امریکی شہر میں یہ پہلی نیٹو کانفرنس ہوگی۔ امریکہ سمیت 49 ممالک کے قائدین دس سالوں تک افغانستان کی سنگلاخ پہاڑیوں سے بے سود ٹکریں مارنے کے بعد جب 20 مئی کو شکاگو میں نیٹو کانفرنس کے میز پر بیٹھیں گے توظاہر ہے انکے ذہنوں پر افغانی بھوت ہی سوار ہو گا اور سب سے زیادہ متفکر کانفرنس کی کرسی صدارات پر بیٹھا امریکی صدر اوباما ہو گا جس کی گھبراہٹ کے پسینوں کی وجوہات کچھ یوں ہونگی۔
امریکی تاریخ کی طویل ترین جنگ لڑنے کے باوجود افغان جنگ میں فتح کے دور دور تک نشانات نہیں بلکہ حالات دن بدن گھمبیر ہوتے جارہے ہیں۔ 2004کے سال میں اگر صرف 60 امریکی فوجی افغانستان میں ہلاک ہوئے تو 2005میں131، 2006میں191، 2007میں 232، 2008میں295، 2009میں 521 اور2010میں711 نے بے سود جانیں قربان کیں۔ 2011میں نیٹو کی کل اموات566 تھیںاور اب 2012کے پہلے تین ماہ میں131 اتحادی سپاہی لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ اس سے امریکہ اور اسکے اتحادیوں کی نیندیں حرام ہو چکی ہیں چونکہ یہ ایک بہت بڑا جانی نقصان ہے۔
امریکی صدارتی انتخابات بالکل قریب ہیں اور اسی سال میں ہونیوالے ہیں جبکہ امریکی عوام کی بھاری اکثریت افغان جنگ کیخلاف ہے لیکن ہندوستان اور اسرائیل چاہتے ہیں کہ امریکہ مسلمانوں کی شہ رگ سے انگوٹھا نہ ہٹائے تاکہ پاکستان اور ایران اتنے دبا میں رہیں کہ ان کو کشمیریوں اور فلسطینیوں کی آزادی کی بات بھول جائے۔طالبان کے ساتھ قطر میں ہونیوالے مذاکرات بھی بے نتیجہ رہے چونکہ طالبان کرزئی حکومت کو ماننے کیلئے تیار نہیں اور ساتھ ہی پہلے اپنے قیدیوں کی رہائی کیلئے مطالبہ کررہے ہیں جو امریکی نہیں مان رہے۔
طالبا ن کے افغانستان میں خود کش حملے بھی زوروں پر ہیں۔ 15 اپریل کا خود کش حملہ افغانستان کے سب سے محفوظ شہر کابل میں سفارت خانوں اور اسمبلی کی عمارت پر ہوا۔ امریکہ کیلئے حیرانگی کی بات یہ ہے کہ افغان فوج کے سپاہی بھی امریکہ کیخلاف اس جنگ میں شریک ہیں اور پچھلے تین ماہ میں افغان فوجی 16 نیٹو کے سپاہیوں کو ہلاک کر چکے ہیں۔
آسٹریلین وزیراعظم کہتی ہیں کہ وہ اگلے سال کے وسط تک اپنے1550 فوجیوں کو لڑاکا رول سے بدل کر صرف اتحادیوں کے سپورٹ رول میں لا رہی ہیں۔ فرانس کے متوقع نئے صدر فرانکوس ہالینڈو کہتے ہیں کہ 6 مئی کے انتخابات میں اگر وہ فرانس کے صدر منتخب ہو گئے تو اپنے3550 فوجیوں کو اس سال کے آخر تک ہی افغانستان سے واپس بلا لیں گے۔ یہ امریکہ کیلئے پریشان کن ہے۔
افغان فوج کی تعداد کو اگر اخراجات کم کرنے کیلئے، امریکی منصوبے کیمطابق، 352000 سے کم کرکے 230000 کر دیا گیا اور اس سے یہ توقع کی گئی ہے کہ 2014کے بعد یہ فوج افغانستان کا نظم و نسق سنبھال سکے گی تو یہ احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہو گا۔ چونکہ یہ فوج نظریاتی ہے نہ پیشہ ور، اس لئے اس میں ویل ٹو فائیٹ کا فقدان ہے۔ اسکے علاوہ اس میں80 فیصد سے زیادہ غیرپشتون ہیں جس کی وجہ سے یہ فوج صحیح طرح نمائندہ بھی نہیں، ساتھ ہی اس پر اٹھنے والا سالانہ خرچ جو تقریبا 7ارب ڈالرز ہو گا، نیٹو ممالک دینے کو تیار نہیں چونکہ انکی اپنی معاشی حالت ناگفتہ بہ ہے۔
امریکہ کی اب تک کی دہشتگردی کیخلاف پالیسی نے دہشتگردی کو کم کرنے کی بجائے اس کو فروغ دیا ہے۔ پاکستان سمیت خطے کے ممالک کو مطمئن کرنے کی بجائے ناراض کیا گیا ہے۔ ریمنڈ ڈیوس، ایبٹ آباد، دتہ خیل، سلالہ اور ڈرون حملوں نے امریکی حکومت کیخلاف زبردست نفرت کے جذبات کو جنم دیا ہے۔ افغانیوں کو قتل کرکے انکے جسدِ خاکی کی بے حرمتی کی گئی۔ عورتوں کی عزت لوٹی اور قتل کیا۔ بگرام ہوائی اڈے پر قرآنِ کریم کے نسخوں کو نذر آتش کیا گیا۔ پاکستان کی پیٹھ میں بار بار چھرا گھونپا گیا اور اب بھی بدقسمتی سے امریکہ مخلص نہیں۔ جس سے پاکستان، افغانستان بلکہ ساری مسلم دنیا میں امریکہ کیخلاف حقارت کے جذبات ہیں جو پاک امریکہ تعلقات کی بہتری کے راستے میں بہت بڑی رکاوٹ ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ امریکہ اور پاکستان میں باہمی اعتماد کا زبردست فقدان ہے۔ اسکی بڑی وجہ امریکی دوغلی پالیسی کے علاوہ افغانستان کے حوالے سے دونوں ممالک کے متضاد مفادات ہیں۔ سویت یونین کے خاتمے کے بعد جب امریکہ دنیا کا بے تاج بادشاہ بن گیا تو ا سکی آنکھوں کے آگے رعونت کی چربی کی ایک ایسی جھلی آئی، جس کی وجہ سے امریکہ زمینی حقائق کو صحیح طرح دیکھنے سے قاصر ہے اور ساتھ ہی وہ یہ چاہتا ہے کہ جب وہ کسی بھی چیز کی خواہش ظاہر کرئے تو دنیا کے ممالک اپنی عزت و ناموس دا پر لگا کر بھی اسکی فورا تکمیل کریں۔
امریکہ اور اسکے اتحادیوں کا دل ہے کہ مسلمانوں کے سر ہوں اور انہی کے جوتے بھی ہوں اور وہ انکی زور زور سے پٹائی کرئے اور کوئی اف بھی نہ کرئے۔ اپنی اس بیمار ذہنی کیفیت سے اگر امریکہ چھٹکارہ حاصل کر لے تو پھر بڑی بڑی نیٹو کانفرنسوں کے دربار لگانے کی کوئی ضرورت نہیں رہے گی۔ اس خطے کے معاملات صرف اس خطے کے ممالک ہی حل کر سکتے ہیں۔ امریکہ کی یہ خواہش ہے کہ وہ افغانستان کا میدان چھوڑ کر، خواہ شکست خوردہ ہو کر بھی بھاگے، تو بھی افغانستان میں اسکی مرضی کی حکومت ہی بنے۔ اس کا دیا ہوا آئین قائم ودائم رہے، اس کی بنائی ہوئی افغان فوج کو کوئی نہ چھیڑے اور کچھ اہم ہوائی اڈے بھی اسکے قبضے میں رہیں تاکہ وہ وسطی ایشائی ریاستوں، ایران، چین اور روس کو ڈرائے رکھے اور پاکستان اورا فغانستان کی اپنے ڈرون حملوں سے پٹائی بھی جاری رکھے۔
پاکستان امریکہ کو نہایت اخلاص سے بتاتا ہے کہ 2014کے بعد افغانستان میں امریکہ کی مذکورہ بالا خواہشات میں سے کسی کی تکمیل بھی ممکن نہیں۔ افغانستان پاکستان کا پڑوسی مسلمان ملک ہے اور دونوں ممالک اپنی تاریخ اور جغرافیہ کے رشتے اگر توڑنا بھی چاہیں تو ایسا نہیں کر سکتے۔ ہم نے مل کر رہنا ہے، ا س لئے پاکستان کی دیانت دارنہ رائے یہ ہے کہ پوسٹ امریکہ افغانستان بدقسمتی سے بہت سے خونیں معرکوں کے بعد ہی کسی پرامن شکل میں شائد عشروں کے بعد سامنے آئیگا۔ چونکہ جہاں ایک طرف بے گناہ افغان عورتوں، بچوں اور بوڑھوں سے قبرستان بھر گئے ہیں اور زندہ پشتون آبادیاں غربت کی چکی میں پس رہی ہیں، وہاں دوسری طرف جنگجو سرداروں کا مالِ حرام اور ڈرگ منی کھاکر پیٹ پھٹنے والا ہے۔
انکے پاس ڈالرز ہی نہیں، اسلحہ بھی ہے اور ان کو عیاشی کی زندگی کا چسکا بھی پڑ چکا ہے ا س لئے افغانستان میں جو ناانصافیوں کے بیج امریکہ اور اسکے اتحادیوں نے بوئے ہیں اسکی فصل تو بدقسمتی سے ضرور اگے گی، جس کو کاٹتے وقت کشت و خون ہو گا اور نقصان ہمارے افغان بھائیوں کا ہی ہوگا۔ اس متوقع خانہ جنگی کے امکانات کو محدود کرنے کیلئے یہ انتہائی ضروری ہے کہ سب سے پہلے مجروح افغانیوں کو بیرونی گدوں کی نوکدار تیز چونچوں اور خونی پنجوں سے چھڑایا جائے اور امریکہ بین الاقوامی سطح پر اپنی مسلم کش پالیسیوں پر نظرثانی کرے اور نہ صرف افغانستان سے نکل جائے بلکہ فلسطین کے مسئلہ پر اسرائیل کی پشت پناہی اور کشمیر کے مسئلہ پر ہندوستان کی حوصلہ افزائی نہ کرے۔
حقیقت یہ ہے کہ بش اور اوباما کی پالیسیوں نے عظیم امریکی قوم کے چہروں پر بدنامی کے جو داغ لگائے ہیں، انہوں نے امریکہ کا چہرہ مسخ کردیا ہے۔ بین الاقوامی قوانین اور اخلاقیات کی دھجیاں اڑا کر کوئی بھی طاقت زیادہ دیر تک اپنا تسلط برقرار نہیں رکھ سکتی۔ ہٹلر بننے والے ہٹلر کے انجام کو بھی ضرور ذہن میں رکھیں۔ا مریکہ یہ بھی سوچے کہ مسلم دنیا میں انتہا پسندی کو جنم دینے میں امریکی حکومتوں کی مسلمان دشمن، جانبدارانہ اور غیرمنصفانہ پالیسیوں کا کلیدی کردار ہے۔
جب آپ بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑا کر کسی کی پیٹھ دیوار سے لگا لیں گے تو وہ آپکی پیٹی سے اوپر اورپیٹی سے نیچے بھی آپ کو نہ صرف ضربیں لگانے کی کوشش کریگا بلکہ آپکے منہ پر تھوکے گا بھی اور ایسی صورت میں دہشت گردی کی سخت مخالف پاکستان جیسی مسلمان حکومتیں بھی بے بس ہونگی۔ امریکہ کیخلاف موجودہ حقارت کو کم کرنے اور اس کا پاکستان کے ساتھ اعتماد کا رشتہ قائم کرنے کیلئے یہ ضروری ہے کہ پاکستان کو اعتماد میں لیکر امریکہ افغانستان سے نکل جائے، افغانیوں، کشمیریوں اور فلسطینی مسلمانوں کو انصاف ملے، مسلمانوں کا قتل و غارت ختم ہو، امریکہ خلیج فارس سے اپنی افواج واپس بلائے اور ایران کو جنگ کی دھمکیاں دینے کی بجائے اس سے معاملات پرامن طریقے سے طے کرے۔ افغانستان سے ہندوستان سمیت ساری بیرونی جاسوس کمپنیوں کا انخلا ہو، افغانستان امن مذاکرات صرف اورصرف افغان مزاحمتی قوتوں سے ہوں، جس کیلئے پاکستان ایک بہت مفید کردار ادا کر سکتا ہے۔
ڈرون حملے بند ہوں، امریکہ ہمارے جانی نقصانات پرنہ صرف معافی مانگے بلکہ ان امریکی فوجیوں پر جنگی جرائم کے مقدمے بھی چلائے جنہوں نے پچھلے دس سالوں میں بے گناہ پاکستانیوں، افغانیوں اور عراقیوں کو قتل کیا، مہذب قوموں کا یہی وطیرہ ہوتا ہے کہ وہ بین الاقوامی قوانین کا احترام کرتی ہیں۔ پاکستان کے مالی نقصانات کا ازالہ ہو، 17 لاکھ غیر قانونی افغان مہاجرین اپنے وطن واپس لوٹیں، امریکہ پاکستان میں اپنے سفارت خانے کی ناقابل یقین توسیع کاکام روک دے۔
میری عاجزانہ رائے یہ ہے کہ جب تک امریکہ اپنے طرزِ عمل میں بنیادی تبدیلیاں لانے کو تیار نہ ہو اس وقت تک پاکستان کو شکاگو میں ہونیوالی نیٹو کانفرنس میں شمولیت کی حامی بھرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔