پاکستان سمیت دنیا کے بیشتر ممالک میں ہر سال مئی کے دوسرے اتوار کو ماوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے جبکہ متعدد ممالک میں اس دن کو منانے کے لیئے الگ دن مقرر ہیں۔ ناروے میں یہ دن فروری کے دوسرے اتوار، جارجیا میں تین مارچ، افغانستان اور چند دیگر ممالک میں آٹھ مارچ جبکہ برطانیہ میں مئی کے آخری اتوار کو منایا جاتا ہے۔ اسی طرح کئی ممالک نے اس دن کو منانے کے لیئے اپنے من پسند دن مقرر کر رکھے ہیں۔یوں سال کے تقریباً ہر مہینے ہی یہ دن مختلف ممالک میں منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد عوام الناس میں ماں کے رشتے کی اہمیت کو اجاگر کرنا اور اس عظیم ہستی کے لیئے عقیدت، شکرگزاری اور محبت کے جذبات کو فروغ دینا ہے۔ ماں جیسی ہستی اولاد کے لیئے رونق، زندگی، محبت، ہمت، احساس، حوصلہ، دھڑکن، سکون اور سب سے بڑھ کر جنت ہے بلکہ ماں جنت جانے کا ایک راستہ ہے کیونکہ اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ ماں باپ کی خدمت کرنے سے جنت ملتی ہے اور انہیں محبت کی نظر سے دیکھنا ایک قبولِ حج کا ثواب ہے۔
اسکے برعکس مغربی معاشرے میں والدین بوڑھے ہونے تک کام کرتے رہتے ہیں اور ریٹائرمنٹ تک جو جمع پونجی اُن کے پاس ہوتی ہے اُس سے اپنی بقیہ زندگی کسی بلڈنگ کے اپارٹمنٹ میں رہ کر گزار دیتے ہیں۔ جن والدین کے پاس جمع پونجی نہ ہو وہ اولڈ ایج ہومز میں داخل ہو جاتے ہیں جہاں پر حکومت ان کے گزر بسر کا بندوبست کرتی ہے۔ اس دوران اگر بچوں کو فرصت ملے تو وہ اپنے والدین سے ملنے اولڈ ایج ہومز چلے جاتے ہیں ورنہ فون پر ہی بات کر لیتے ہیں یا پھر کسی تہوار پر کارڈ بھیج کر بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔ ان ہی محرومیوں کے سبب مغربی معاشرے میں مدر ڈے اور فادر ڈے نے رواج پکڑا ورنہ ماں کے لیئے جو جذبہ ہمارے دلوں میں ہے اسے سمیٹ کر کسی ایک دن کے لیئے مقرر کرنا ہرگز ٹھیک نہیں ہے۔
یہ ماں ہی ہے کہ جس سے اولاد کی زندگی کی ہر سانس جڑی ہوتی ہے اور اسکے بغیر زندگی ادھوری لگتی ہے۔دنیا میں جتنے بھی رشتے ہوں اور ان رشتوں میں جتنی بھی محبت ہو وہ اپنی محبت کی قیمت مانگتے ہیں مگر ماں کا رشتہ دنیا میں واحد ایک ایسا رشتہ ہے جو صرف آپ کو کچھ دیتا ہی ہے اور اسکے بدلے میں آپ سے کچھ نہیں مانگتا۔ اگر کوئی انسان دنیا میں جنت پانا چاہتا ہے تو صرف ایک بار ماں کی عزت، بڑائی اور پاکیزگی کو سمجھ لے تو تاحیات اپنی ماں کے احسانوں کا بدلہ نہ چکا سکے گا۔ایک شخص نے اپنی ماں کو کندھوں پر اُٹھا کر سات حج کروائے اور بولا آج میں نے اپنا حق ادا کر دیا تو غیب سے آواز آئی کہ ابھی تو تُو نے اُس ایک رات کا حق بھی ادا نہیں کیا جب تُو نے سوتے میں بستر گیلا کر دیا تھا تو تیری ماں ہی تھی جس نے تجھے تو خشک جگہ پر لیٹا دیا اور خود گیلی جگہ پر لیٹ گئی۔ پھر ہم صرف ایک دن مدر ڈے منا کر یہ حق کیسے ادا کر سکتے ہیں۔
کبھی میں سوچتا ہوں کہ دُنیا میں سب سے قیمتی شے کیا ہے تو خیال آتا ہے کہ دُنیا کی خوبصورت ترین ہستی صرف ایک ماں ہی ہے جو بے حد پاکیزہ اور محبت کرنے والی ہوتی ہے۔ رب العزت نے ایک ماں کو شاید یہ سوچ کر بنایا ہے کہ جب اولاد کو دنیا میں کہیں بھی سکون نہ ملے تو وہ اپنی ماں کی آغوش میں آ کر سوچوں، آہوں اور دُکھوں کو نثار کر دے۔ اس وقت وہ ایسی راحت محسوس کرے گا جو اُسے کہیں بھی نہ ملی ہوگی کیوں کہ ماں اس کائنات کا ایک جز ہے جو اپنے اندر محبت کا سمندر لیئے ہوئے ہے۔ انسان کو جب بھی کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ سب سے پہلے اپنی ماں کو ہی پکارتا ہے۔ ویسے تو کوئی شخص یہ نہیں چاہتا کہ وہ مغرور ہو اور لوگ اسے ناپسند کریں لیکن ماں ایک ایسی دولت ہے جسے پانے کے بعد انسان مغرور ہنے میں فخر محسوس کرتا ہے۔حسن صحبت کے اعتبار سے ماں کا حق باپ کے حق سے تین گنا زیادہ ہے ۔ اس کا سبب بھی یہ ہے کہ ایک ماں نے اپنی اولاد کے لیئے بہت سی صعوبتوں اور مشقتوں کو برداشت کیا ہوتا ہے۔
میرا ایمان ہے کہ ماں کبھی اپنی اولاد کو دل سے بددعا نہیں دیتی اور اگر کسی نے اُسے دکھ دے کر ناراض کر دیا تو سمجھ لو کہ دنیا سے بھی وہ شخص نامراد گیا اور آخرت میں بھی نامراد رہا۔ اگر ہم اپنے والدین کا احترام کرینگے تو بدلے میں ہمارے بچے بھی ہمیں عزت و احترام دینگے جبکہ اگر ہم والدین کی نافرمانی کرینگے تو عنقریب ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی ہوگا کیونکہ یہ دنیا مکافات عمل ہے۔ماں کی قدر کا اس وقت پتہ چلتا ہے جب ماں دنیا سے چلی جاتی ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی ماں کی وفات کے بعد اللہ تعالیٰ سے ہمکلام ہونے جا رہے تھے کہ راستے میں ٹھوکر لگنے سے گرنے ہی لگے تھے کہ غیب سے آواز آئی ”اے موسیٰ! سنبھل کر چل اب تیرے پیچھے دعا کرنے والی ماں نہیں ہے۔” ماں کی دعائوں سے ہر مشکل آسان ہو جاتی ہے جو کہ اپنی اولاد کی تمام تر بلائیں تک لے لیتی ہے اور اولاد کے لیئے ٹھنڈی چھاؤں کا درجہ رکھتی ہے۔
یورپین معاشرے میں تو بوڑھے والدین اپنی اولاد کے لیئے کچرے کا مال بن جاتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں جگہ جگہ نرسنگ ہومز موجود ہیں جہاں سرکاری خرچ پر بوڑھوں کی کفالت ہوتی ہے لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ اب یہ کلچر آہستہ آہستہ ہمارے معاشرے میں بھی فروغ پا رہا ہے۔اس سلسلے میں کام کرنے والے افراد قابل تحسین ہیں کیونکہ اُن کا مقصد یقینا انسانیت کی خدمت ہوگا مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک اسلامی ملک میں اولڈ ایج ہومز قائم کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ ہمارے معاشرے میں اس کا رواج پانا یہی تاثر دیتا ہے کہ یہاں بھی بہت سے بوڑھے والدین اپنی اولاد کی نافرمانی کا شکار ہیں۔ایک اسلامی معاشرے میں اپنے والدین کو بڑھاپے میں اولڈ ہومز کی راہ دکھانا یقینا اللہ تعالیٰ کے غضب کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ تحریر: نجیم شاہ