آج پھر باد بہاراں نے مرے کانوں میں چپکے چپکے سے ترے آنے کا پوچھا مجھ سے پوچھا، سندیسہ کوئی،چٹھی کوئی آئی ہے؟ گنگناتے ہوئے جھرنوں نے ذرا تھم تھم کے پوچھا ساجن کی خبر بولو کہیں پائی ہے؟ آج پھر رت جگا آنگن میں مرے اترے گا آج پھر نیند کی دیوی مرا گھر بھولے گی آج پھر چاند کے چہرے کا یہ ان چھوا طلسم مجھے دیکھے گا تو بس دیکھتا رہ جائے گا آج پھر بھور بھئے تک تری باتیں خود سے اپنی تنہائی سے کرتی ہی چلی جائوں گی آج پھر برہا کی ماری ہوئی بدلی کوئی میری آنکھوں میں جو جھانکے گی ٹھٹھک جائے گی آج پھر دیر تلک، دیر تلک، دیر تلک تو نہ آئے گا، تری یاد چلی آئے گی