ایک چیخ ابھی تک باقی ہے تم سات سمندر پار گئے تو ایسا لگا کہ ساتوں صدیاں بیت گئیں آ آ کر موسم ملنے کے بالآخر تھک کر لوٹ گئے کچھ، لوگوں نے نشتر اگلے کچھ اپنوں نے بے حال کیا کچھ ہجر کی لمبی اور کالی راتوں نے ہمیں نڈھال کیا احساس کے گھائو گہرے تھے کوئی وید بھی ان کو بھر نہ سکا کچھ، خواب کے بوجھل منظر تھے جاگے تو کچھ بھی پاس نہ تھا بہتر تھا نہیں ہوتے ہم لوگ یہ ہونا ہم کو راس نہ تھا کچھ مت پوچھو اس عرصے میں کیا کیا نہ ہوا کیا کیا نہ سنا۔۔۔۔۔۔۔ کیا کیا نہ سہا تھا کتنی چھاگل پانی جو نینوں سے برسوں تک برسا لیکن دیواریں سینے کی اب بھی اکثر ہل جاتی ہیں یوں لگتا ہے، یہ کہتی ہیں تم اندر جھانکو تو جانو اک چیخ ابھی تک باقی ہے