اک برس کے عرصے میں چار چھ ملاقاتیں شام کی حویلی میں صبح کے مہکنے کی بے یقین سی باتیں کچھ عذاب ماضی کے گفتگو کا موضوع تھے کچھ سوال خوابوں کے کچھ جواب آنکھوں کے مشترک سے جذبوں کے آئینوں میں دیکھے تھے آئینے تو سچے تھے اور وہ ملاقاتیں چار چھ ملاقاتیں جن میں تیری باتوں کی بارشوں کے موسم نے جتنے جھوٹ بولے تھے شام کی حویلی میں جتنے زہر گھولے تھے
تیرا بے وفا لہجہ دھیان میں جب آتا ہے تب سوال کرتی ہیں میری عمر کی راتیں