ایک دن چاند سے بچھڑنا ہے آنکھ، تقدیر، اور تعلق جو جانے کس دوسرے کے بس میں ہیں سانپ بن بن کے ڈستے رہتے ہیں اپنی سانسوں میں ڈوبتے دل کو چاند جس طرز کا مسافر ہے ہجر ہی ہے کہ جو پڑائو میں ہے بس جدائی کو ہے ٹھہر جانا ہم تو شکوہ بھی کر نہیں سکتے اور تنہائیوں سے شکوہ کیا چاند بے چینیوں کا موسم ہے بیت جانے پہ بھی ہمیشہ ہی اپنے آثار چھوڑ جاتا ہے یہ مری آنکھ کے سلگتے ہوئے زرد رو آئینوں کی نمناکی سب اسی درد کی نشانی ہے یہ مرا بے سبب ہی خوش رہنا سب اسی غم کی آزمائش ہے ایک خواہش ہے کس کو مرنا ہے ایک جیون جسے بگڑنا ہے ایک بستی جسے اجڑنا ہے ایک دن چاند سے بچھڑنا ہے