اف غریبوں کا کیسا 2012-13 بجٹ آیا..؟

budget

budget

ابتداکررہے ہیں بشیرفاروقی کے اِس شعر سے کہ
ہمارے مالیاتی شہسواروں کا بجٹ آیا وطن کے غمگساروں رازداروں کا بجٹ آیا
مبارک ہوعزیزانِ وطن تم کو مبارک ہو گرانی کی خبرلے کر خساروں کا بجٹ آیا

وفاقی  حکومت نے آئندہ مالی سال 2012-13کے لئے بجٹ منظوری کے لئے پارلیمنٹ میں پیش کردیا جس میں اِن دنوں ہماری قوم کو بجلی کے جس بحران کا سامنہ ہے اِس سے نمٹنے کے لئے 183ارب مختص کئے گئے ہیں جسے وفاقی وزیر خزانہ ڈاکٹرعبدالحفیظ شیخ نے اپوزیشن کے شدید احتجاج اور ہنگامہ آرائی کے دوران پیش کیا اگرچہ یہ بجٹ موجود حکومت کا کئی حوالوں سے آخری بجٹ کہاجاسکتاہے جس میں حکومت نے عوام پر مہنگائی کے وققے وقفے سے بم گرانے کا جو سامان کیا ہے یہ اعزاز بھی ہماری اِس حکومت کو ہی جاتاہے جس نے عوام کے لئے خود کو خادم بناکر پیش کرنے کے طرح طرح کے دعوے بہت کئے مگر اِس کے یہ سارے دعوے ریت کے ڈھیر ثابت ہوئے۔

ppp

ppp

اف غریبوں کے لئے روٹی ،کپڑااور مکان کا نعرہ لگانے والی ہماری موجودہ حکومت نے اپنے اقتدار کا آخری بجٹ جو 29کھرب 60ارب روپے خسارے کا ہے یہ بھی پیش کرہی دیاہے اِس پر بھی اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ حکومت جتنے بھی عرصے قائم رہتی ہے اِس دوران اور کتنے منی بجٹ پیش کرے گی اِس کا کریڈٹ بھی اِسے ہی جائے گا جس میں اِس نے اپنے الفاظ کی ہیر پھیر سے اپنے لئے تو مزے اور عیاشیوں کے تما م دروازے کھول رکھے ہیں مگر افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ملک کے غریبوں کو کوئی خوشخبری تو نہیں دی ہے ہاں البتہ ملک کے سرکاری تنخواہ دار اور پینشن یافتہ طبقے کے لئے اونٹ کے منہ میں زیرہ جتنا اضافہ کرکے اِنہیں مہنگائی کا ایندھن بننے کا انتظام ضرور کردیا ہے اور اپنا سینہ چوڑا کرلیا ہے اِس موقع پر ہمیں یہ شعر یا د آیا کہ

یہ حکومت کہہ رہی ہے 29کھرب کا بجٹ ہے غریبوںاور آشفتہ سروں کے واسطے
لیکن آثارو قرآئن سے پتہ چلتا ہے یہ ہے سیاسی رہبروں یا ورکروں کے واسطے

اور اب تو اِس بجٹ کے بعد سے تو ہمیں ایسا محسوس ہوتاہے کہ اب ملک کے شہروں شہروں اور گاو ں گاو ں جس طرح اندھیروں کا راج ہے اِس بجٹ سے غریبوں کے دل و دماغ سے زندگی کی روشن کرن بھی ختم ہوجائے گی اور اِن کاپیٹ بھی روٹی روٹی کو چلاتارہے گا ایسا لگاتا ہے کہ ہماری اِس عوام دوست حکومت نے اپنے اقتدار کے آخری بجٹ میں ملک سے غربت تو درکنار ملک سے غریبوں کو ہی نیست نابود کرنے کا اپنا ایک اچھا اور دیرپاکوئی پروگرام بنارکھاہے یہ بجٹ جسے اقتصادی ماہرین11کھرب 84ارب کا خسارے کا بجٹ کہہ رہے ہیں جس کا براہ راست اثر ملک کے غریبوں کے باورچی کھانوںاور اِن کی چھوٹی چھوٹی جیبوں پر ہی پڑے گااور وہ اپنی غربت اور مفلسی کے مارے چیختے چلاتے سڑکوں پر آجائیں گے اور ایوان صدراور وزیراعظم ہاو س اور پارلیمنٹ کے گردونواں میں یہ کہتے پھریں گے کہ

یہ آیاہے جب سے عوامی بجٹ غموں میںگزرتاہے ہر ثانیہ
سنائیں کِسے ہم گرانی کا حال دکھائیں کِسے گھر کا میزانیہ

poor peaple

poor peaple

یقینااتنا بڑا خسارے کے بجٹ آئندہ دنوں میں ملک کی غریب عوام کی مہنگائی کے ہاتھوں کمر دہری کردے گا تو وہیں تاجروں اور صنعتکاروں کے لئے بھی پریشانیوں کا باعث بنے گا اور ہمارے وہ تاجر اور صنعتکار جو پہلے ہی 64سالوں سے حکومتوں کو ٹیکس کی پوری ادائیگی میں ڈنڈی مارتے چلے آئے ہیں اِس مرتبہ بھی یہ خود پر لگنے والے اضافی ٹیکسوں کی وجہ سے پریشان ہی دکھائی دیں گے اب یہ کام تو حکومت اور اِس کے ان اداروں کا ہے جنہیں وفاقی محاصل کی مد میں 32.34ارب لگائے ہیں اور جنہیں اپنا ٹیکس وصولی کا ہدف23.81ارب پورے کرنے ہیں یہ کس طرح اپنے اہداف کو حاصل کرتے ہیں اور یہ اِس کے لئے کتنے پاپڑ بیلتے ہیں یہ اِن کا کام ہے اگر ہمارے اداروں نے تاجروں اور صنعتکاروں سے ٹیکس کی وصولی میں ذرابھی کوتاہی کی تو قوم کہہ اٹھے گی کہ تاجرانِ حیلہ پرورہوں کہ صنعتکار ہوں ٹیکس دیتے ہیں حکومت کو کہاں یہ نفع خور کیوں خساروں کا بجٹ آئے نہ اپنے ملک میں جبکہ ہر آجر ہماری قوم کا ہو ٹیکس چور اور پھر ملک کے غریب عوام اپنی لاچارگی اور مفلسی میں یہ کہنے سے بھی کوئی دریغ نہیں کریں گے کہ مالِ وزر،حرص وہوس کا جو جنوں ہے آج کل چشمِ انساں نے کبھی ایسا جنوں دیکھا نہ تھا عہدِ جمہوری میں جتنا ہورہا ہے کشت وخون دورِ آمر میں بھی انتا کشت وخون دیکھا نہ تھا اِس میںکوئی شک نہیں کہ ہماری اِس موجودہ حکومت نے کیا پہلے ہی گزشتہ چار بجٹوں میں عوام کا خون کم نچوڑا تھا جو اِس نے جاتے جاتے اپنا یہ آخری بجٹ بھی پیش کردیاہے جس میں عوام کو مہنگائی کے تحفوں کی نوید سنانے کے اور کچھ نہیں دیا گیا ہے ایسی حکومت جو خود کو عوام کا سب سے بڑا ہمدردر کہتی رہی ہے اور شاید آئندہ انتخابا ت میں بھی یہ خود کو اِسی لبادے میں ڈھانپ کر پیش کرے اور عوام سے ووٹ حاصل کرنے کے بہانے تلاش کرے اِس حکومت کو اپنے دور میں پیش کئے گئے پانچوں بجٹوں میں عوام کے لئے کئے گئے ریلیف کا خود جائزہ لینا ہوگا اور پھر سوچے کہ اِس نے اپنے دورِ اقتدار میں عوام کو کتنا ریلیف کس مد میں دیا ہے اِس کے بعد یہ آئندہ الیکشن میں عوام کی دہلیز پر اپنے لئے ووٹ کی بھیک مانگنے کے لئے آئے ہمیں اِس بات کا پوراپورایقین ہے کہ اگر برسرِ اقتدار جماعت نے اپنا محاسبہ خود کرلیا تو یہ اِس نتیجے پر ضرور پہنچے گی کہ اِس نے اپنے اقتدار کے پانچ سالوں میں عوام کے لئے کچھ نہیںکیا ہے تو پھر یہ اب کس منہ سے دوبارہ ووٹ لینے اِن کے دروازوں پر جائے اور ہم نے اپنے عوام کو سوائے مہنگائی کے طوفانوں، بجلی اور گیس کے بحرانوں کے دیا ہی کیاہے جس سے ہماری عوام ہم سے پریشان ہے اور رہی سہی قصر اِس آخری بجٹ 2012-2013 نے پوری کردی ہے جو ہم عوام سے دوبارہ اپنے اقتدار کے لئے ووٹ لینے جائیںگے عوام میں رہ ہی کیا جائے گا
بقول شاعر :۔

جسم میںقوم کے اب جاں کہاں باقی ہے اتناخوں چوساہے رشوت کے طلبگاروں نے
قرض ہی قرض ہے اب میرے وطن کے سر پر اتنالوٹا ہے حکومت کے نمک خواروں نے

تحریر: محمداعظم عظیم اعظمazamazimazam@gmail.com