دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے

dil e nadan tujhe hua kya hai

dil e nadan tujhe hua kya hai

دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے
آخر اس درد کی دوا کیا ہے

ہم ہیں مشتاق اور وہ بیزار
یا الہٰی یہ ماجرا کیا ہے

میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں
کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے

جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود
پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے

یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں
غمزہ و عشوہ و ادا کیا ہے

سبزہ و گل کہاں سے آئے ہیں
ابر کیا چیز ہے، ہوا کیا ہے

ہم کو ان سے وفا کی ہے امید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے

ہاں بھلا کر ترا بھلا ہو گا
اور درویش کی صدا کیا ہے

جان تم پر نثار کرتا ہوں
میں نے جانتا دعا کیا ہے

میں نے مانا کہ کچھ نہیں غالب
مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے

غالب