ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
Posted on June 5, 2012 By Adeel Webmaster مرزا غالب
be abro hokar
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے
ڈرے کیوں میرا قاتل کیا رہے گا اس کی گردن پر
وہ خوں، جو چشم تر سے عمر بھر یوں دم بہ دم نکلے
نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن
بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے
بھرم کھل جائے ظالم تیرے قامت کی درازی کا
اگر اس طرئہ کا پیچ و خم نکلے
مگر لکھوائے کوئی اس کو خط تو ہم سے لکھوائے
ہوئی صبح اور گھر سے کان پر رکھ کر قلم نکلے
ہوئی اس دور میں منسوب مجھ سے بادہ آشامی
پھر آیا وہ زمانہ جو جہاں میں جام جم نکلے
ہوئی جس سے توقع ختگی کی داد پانے کی
وہ ہم سے بھی زیادہ خستہ تیغ ستم نکلے
محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا
اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے
کہاں میخانے کا دروازہ غالب، اور کہاں واعظ
پر اتنا جانتے ہیں، کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے
غالب