”علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین جانا پڑا” ، ” علم ایک لازوال دولت ہے” ،” علم ایک بے مثال طاقت ہے” ، ” باادب بانصیب بے اد ب بے نصیب” یہ وہ فقرے ہیں جو ہم بچپن سے اپنے سکول کی دیواروں یا کمروں میں چارٹ پر لکھے ہوئے دیکھتے آرہے ہیں۔ اس وقت کی تعلیم اور آج کی تعلیم میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔اس وقت استاد اور شاگر د اپنے اپنے فرائض بخوبی سرانجام دیتے تھے جبکہ آج کل کے دور میں استاد ٹیچنگ کے ساتھ ساتھ دوسرے کاروبار میں مصروف ہوتے جو سکو ل کو صحیح طریقے سے ٹائم نہیں دے پاتے اور اس سے زیادہ بچوں کے پاس تعلیم کے لیے وقت نہیں ہوتا کیونکہ ہمارے معاشرے میں کیبل نیٹ ورک نے اتنی ترقی کرلی ہے کہ بچوں کو اب پڑھائی سے زیادہ کیبل چینل پر نشر ہونے والے پروگراموں کی فکر ہوتی ہے۔
Learn
آج کے اس دور میں تعلیم کا واویلا تو حکمرانوں نے کیا مگر اس کے لیے عملی اقدامات کسی نے نہیں کیے ۔ پچھلے دس سال سے پنجاب میں جو بھی وزیراعلیٰ بنا اس نے تعلیم کا بیڑا اٹھا لیا۔اس نے سوچا میں تو خواندگی کی شرح سو فیصد کرکے ہی دم لونگا۔ ہر جگہ تعلیم کو اہمیت دی جاتی تھی۔ ہر فورم پر ہمارے حکمران بڑے بلند و بالا دعویٰ کرتے نظر آئے مگر یہ سب زبانی کلامی ہوتا تھا یا پھر ٹیکسٹ بکس پر اس دور کے وزیراعلیٰ کی تصویر پبلش کرانے کے شوق تک محدود ہوتا تھا۔” علم حاصل کرنا ہر مسلما ن مرد اور عورت پر فرض ہے ”یہ میں نہیں کہہ رہا بلکہ یہ ہمارے پیارے حضوراکرمۖ کا فرمان ہے ۔اس لیے مسلمان ہونے کے ناطے ہمارے حکمران تعلیم کا نعرہ لگا دیتے ہیں۔اگر ہم پچھلے دس سال کا تعلیمی معیار کا جائزہ لیں تو مجھے یقین ہیں کہ آپ سب قارئین میری اس بات سے سو فیصد متفق ہونگے کہ پاکستان میں گورنمنٹ سکولز میں تعلیمی سال یکم اپریل سے شروع ہو تا ہے اور 31مارچ کو ختم ہوتا ہے ۔یعنی ایک سال پورا کیا جاتا ہے ۔
لیکن اس تعلیمی میدان میں دو حصے ایسے ہیں جن کے ساتھ بہت بڑی زیادتی کی جارہی ہے مگر کوئی حکمران یا محکمہ تعلیم کے افسران اس کو زیادتی سمجھتے بھی نہیں ۔ویسے بھی یہ کہا جاتا ہے کہ کسی بھی چیز کی بنیاد ہمیشہ مضبوط رکھنی چاہیے ۔ مگر ہمارے حکمران تو ان طالب علموں کے ساتھ سراسر ناانصافی کررہے ہیں۔محکمہ تعلیم کی کارکردگی دیکھیں تو آپ بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہونگے۔محکمہ تعلیم اپریل میں کلاسز شروع تو کردیتی ہے مگر اس کی کتابیں مارکیٹ میں اور خود گورنمنٹ کے سکولز میں دو دو ماہ تک نہیں ملتیں۔سکول کے بچے تعلیم کے لیے سکول تو جاتے ہیں مگر وہ اپریل اور مئی کے دو ماہ وہاں ذلیل خوار ہوکر واپس آجاتے ہیںکیونکہ ان کو دوکتب دے کر کہا جاتا ہے کہ باقی ابھی نہیں آئیں یا شارٹ ہیں اورجب بکس ملنے کا وقت ہوتا توبکس ان کے ہاتھ میں تھما کر موسم گرما کی چھٹیاںکردی جاتی ہیں جو ستمبر تک رہتی ہیں۔ اس کے بعد بچوں کو پڑھنے کا موقع ملتا ہے ابھی ان کو تعلیم حاصل کرتے ہوئے پانچ ماہ ہوئے ہوتے ہیں(اکتوبر سے جنوری) تویکم فروری سے ان کے سالانہ امتحان شروع ہوجاتے ہیں ۔ آپ سمجھ گئے ہونگے کہ میں کن کلاسز کا ذکر کررہا ہوں ؟ جی بالکل صحیح سمجھے میں پرائمری اور مڈل کلاسز کے امتحانات کا ذکر کررہا ہوں ۔ دونوں حصے میں ان طالب علموں کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔ اب آپ خود دیکھ لیں کہ بنیادپورا سال پڑھنے سے مضبوط ہوتی ہے یاکہ چندماہ کی پڑھائی سے بنیاد مضبوط جاتی ہے؟
schools
اب آپ خود فیصلہ کریں ان پانچ ماہ میں ہفتہ وار چھٹی کے علاوہ نیشنل چھٹیاں بھی ہوتی ہیں تو اس کے بعد ان کے پاس کتنا ٹائم ہوگا ؟ جبکہ سالانہ پیپرز ہوتے ہیں تو پیپرز ان کے پورے سیلیبس میں بنایا جاتا ہے خواہ انہیں پڑھنے کا ٹائم کتنا ملا ہو یا ان کو کتنا بھی پڑھایا گیا ہو۔اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا یہ گورنمنٹ جو بچوں کی تعلیمی بنیاد رکھ رہے ہیں وہ ایک پختہ بنیاد ہوگی؟وہ بچے مستقبل میں کیا کریں گے؟جوچیز ان کو پرائمری میں پڑھنا چاہیے تھیں وہ تو کتابیں نہ ملنے اور پورا ٹائم نہ ملنے کی وجہ ضائع ہوگیا ۔اب یہی حال مڈل کلاسز کے بچوں کا ہوگا۔جب رزلٹ آتا ہے تو وہ پھر اتنا اچھا ہوتا ہے کہ جو دیکھے وہ عش عش کراٹھے۔ یہ تو بھلا ہو پرائیویٹ سکولز کا جن کی وجہ سے رزلٹ 50فیصد تک آجاتا ہے ورنہ اگر گورنمنٹ سکولز پر رہیں تو رزلٹ بیس تیس فیصد سے زیادہ نہ ہو۔ پھر اس رزلٹ کے بعد سزا بچوں کے علاوہ ان اساتذہ کوبھی دی جاتی ہے جو ان کلاسز کو پڑھا رہے ہوتے ہیں۔اس میں ان اساتذہ کا یا بچوں کا کیاقصور ہے جن کو کورس مکمل کرنے کے لیے وقت ہی نہیں دیا گیا ۔ پھررزلٹ بھی اس طریقے کا آناہے۔جو بیجاہے وہی کاٹنا پڑے گا۔
مگر قربانی کے بکرے تو بچے یا اساتذہ بنے ،کسی حکمران کو کیا فرق پڑتاہے ۔اور ان سب سے بڑھ کر یہ کہ حکومت کی پالیسی کے تحت اول سے سوئم کلاس تک بچوں کوفیل نہ کیاجائے۔اور اساتذہ پر یہ بھی قانون لاگو ہے کہ بچہ سکول میں حاضر رہے یا نہ رہے اس کا نام سکول سے خارج نہیں کرسکتے ۔ حکومت کی سو فیصد داخلہ پالیسی کے تحت یو پی ای(UPE) سکیم شروع کررکھی ہے جس کے مطابق پانچ سے نو سال کے بچوں کا داخلہ لازمی ہے ۔ جبکہ دیہی علاقوں میں عوام غربت اور جہالت کی بنا پر بیس روپے ماہانہ فیس اور وردی کے خرچے کی وجہ سے اپنے بچوں کو سکول میں داخل نہیں کراتے بلکہ ان کو محنت مزدوری پر لگا دیتے ہیں۔اساتذہ کو مجبوراًبوگس داخلہ کرنا پڑتا ہے جبکہ درحقیقت وہ بچے کسی بھی سکول میں نہیں پڑھ رہے ہوتے بلکہ وہ کسی ہوٹل یا دکان پر کام کررہے ہوتے ہیں۔اس سے زیادہ سونے پے سہاگہ کیا ہوگا کہ گورنمنٹ نے تمام سکولوں کو انگلش میڈیم کا درجہ دے دیا ہے۔جن بچوں کو ابھی اردو نہیں آتی وہ انگلش میڈیم کیسے پڑھ سکتے ہیں؟ جب اس طرح کی تعلیمی پالیسیاں مرتب ہونگی تو شرح خواندگی کاغذوں میں تو بڑھ سکتی ہے مگر معاشرے کے لیے یہ ناسور ثابت ہوتی ہیں۔اگر ہمیں واقعی شرح خواندگی بڑھانا ہے تو تعلیمی سلیبس اور تعلیمی پالیسیوں پر ازسرنو جائزہ لے کر دوبارہ مرتب کرنا ہونگی۔ بچوں کو بروقت کتب ملنی چاہے اور اس کے ساتھ ساتھ ان کو پورا تعلیمی سال مہیا کرنا ہوگا تاکہ ہمارا پاکستان بھی پڑھا لکھا پاکستان بن سکے۔