سوٹزرلینڈ میں سانئسدانوں نے کہا ہے کہ انہوں نے بجلی کے ذریعے چوہے کے دماغ میں اس طرح کے سگنل بھیجے جیسے انسانی دماغ جسم کو بھیجتا ہے اور اس کے بعد لقوا سے متاثر چوہے چلنے لگے۔
سائنسدانوں نے چوہوں کی ریڑھ کی ہڈی کو کمیکل میں ڈوبویا اور پھر ان کو بجلی کے جٹھکے دیے۔
سائنسدانوں نے چوہے کی ریڑھ کی ہڈی کی کا اعلاج اس طرح سے کیا کہ اس کا رابطہ ایک بار پھر دماغ سے جڑ گیا۔
ریڑھ کی ہڈی کا توازن قائم کرنے کے لیے بجلی کے جھٹکے کا بھی استعمال کیا گیا۔
یہ تحقیق سائنسی جریدے ’سائنس‘ میں شائع ہوئی ہے اور ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ایک نایاب تحقیق ہے۔
واضح رہے کہ اس سے قبل سنہ دو ہزار گیارہ میں ایک امریکی شہری کے ساتھ کچھ اسی طرح کا تجربہ کیا گیا تھا۔
اس شخص کا ایک کار حادثے میں سر سے نیچے کا حصہ بے جان ہوچکا تھا، ڈاکٹروں نے اس کی ریڑھ کی ہڈی کو بجلی کے جھٹکے لگائے جس کے بعد متاثرہ شخص کھڑا ہونے میں کامیاب ہوگیا تھا۔
حالیہ تحقیق میں سائنسدانوں نے چوہے کی ریڑھ کی ہڈیوں کو دو جگہوں سے کاٹا جس کی وجہ سے دماغ سے چلے پیغام ان کے پیروں تک نہیں پہنچے جس کے بعد محقیقن نے اس پریشانی کو حل کرنے کی کوشش کی۔
امریکی شخص پر جو تجربہ ہوا اس میں مزید تحقیق کی اور چوہے کی ریڑھ کی ہڈی پر کمیکل لگایا گیا اور بجلی کے جھٹکے دے گئے۔
تحقیق کی قیادت کرنے والے سائنسدان پروفیسر جارجوئر کورٹین نے بتایا ’ چوہوں نے دھیرے دھیرے ایک ایک، دو دو قدم چلنا شروع کیا اور اس کے بعد تو وہ دوڑ لگا رہے تھے۔‘
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ فی الحال یہ طریقہ انسانوں کی ریڑھ کی ہڈی کی مرمت کے لیے کارگر نہیں ہے۔
لاس اینجلس میں واقع کیلیفورنیا یونیورسٹی کے پروفیسر اے ڈگرٹن اس آپریشن کو انجام دینے والی ٹیم میں شامل تھے۔
انہوں نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ مطالعہ اہم ہے اور اس سے واضح ہوتا ہے کہ ریڑھ کی ہڈی کے آپریشن میں دماغ کا اہم کردار ہے۔
پروفیسر اے ڈگرٹن کا اندازہ ہے کہ شاید ایسا ہوا ہوگا کہ ریڑھ کی ہڈی کو اس حد تک متحرک کیا ہوگا کہ وہ حرکت میں آ گئی اور دماغ سے ملے سگنل نے اسے اور بڑھا دیا۔
ریڑھ کی ہڈی کا علاج کرنے والی چیرٹی رسرچ سپائنل کے ڈائریکٹر ڈاکٹر مارک بیکن کا کہنا ہے کہ حقیقت میں لگی چوٹ کی مرمت مزید پیچیدہ ہو سکتی ہے۔