حضرت علی علیہ السلام کی ولادت 13رجب 30عام الفیل مطابق 600عیسوی بروز جمعہ بمقام اندرون خانہ کعبہ ہوئی۔ آپ کے دادا عبدالملطب اور والدہ ماجدہ فاطمہ بنت اسد تھیں۔ آپ دونوں طرف سے ہاشمی ہیں۔ مورخین عالم نے آپ کے خانہ کعبہ میں پیدا ہونے کے بارے میں کبھی کسی طرح کا اختلاف نہیں کیا بلکہ بالاتفاق کہتے ہیں کہ لم یولد قبلہ ولد مولود فی بیت الحرام ۔ (مستدرک حاکم جلد سوم صفحہ 483)
آپ کی کنیت والقاب بے شمار ہیں۔ کنیت ابوالحسن، ابوتر اب اور القاب امیر المومنین، المرتضیٰ، اسد اللہ، ید اللہ، حیدر کرار، نقش رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ساقئی کوثر مشہور ہیں۔
مولانا ابو الحسن ندوی رحمۃ اللہ علیہ حضرت علی علیہ السلام کی خلافت کے بارے میں رقم طراز ہیں:
خلافت کی پوری مدت کو ایک مسلسل مجاہدہ، ایک کشمکش، ایک مسلسل سفر میں گزارنا، لیکن نہ تھکنا، نہ مایوس ہونا، نہ بددل ہونا، نہ شکایت کرنا، نہ راحت کی طلب، نہ محنت کا شکوہ، نہ دوستوں کا گلہ نہ دشمن کی بدگوئی، مدح سے بے پرواہ، جان سے بے پرواہ، انجام سے بے پرواہ، ماضی کا غم نہ مستقبل کا اندیشہ، فرض کا ایک احساس مسلسل سعی کا ایک سلسلہ غیر منقطع، دریا کا قہر، سورج اور چاند کی سی پابندی، ہواؤں اور بادلوں جیسی فرض شناسی۔
معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح ذوالفقار ان کے ہاتھ میں سرگرم اور بے زبان ہے اسی طرح وہ کسی اور ہستی کے دست قدرت میں سرگرم عمل اور شکوہ و شکایات سے ناآشنا ہیں۔ ایمان و اطاعت کا وہ مقام جو صد فیصد یقین کا حاصل ہوتا ہے لیکن اس کا پہچاننا اور ان نزاکتوں اور مشکلات سے واقف ہونا بڑے صاحب نظر اور صاحب ذوق کا کام ہے۔ اس لئے ان کی زندگی اور ان کی عظیم شخصیت کا پہچاننا بڑا امتحان ہے۔ (المرتضیٰ)
علی علیہ السلام کی سخاوت اور طبیعت کی خود مختاری کا یہ عالم تھا کہ افلاس او رفاقہ کے دنوں میں بھی جو کچھ وہ دن بھر کی مزدوری کے بعد حاصل کرتے تھے اس کا ایک بڑا حصہ غریب اور فاقہ کش لوگوں میں تقسیم کردیا کرتے تھے۔ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے بعد امت مسلمہ نے حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھوں پر بیعت کرنے پراتفاق کیا۔ جذبات میں بھرے لوگ حضرت علی علیہ السلام کی جانب دوڑ پڑے لیکن آپ نے ان کی بات ٹھکراتے ہوئے فرمایا مجھے چھوڑ دو کسی اور کے پاس جاؤ۔ حضرت علی علیہ السلام جذبات کا اسیر ہونا نہیں چاہتے تھے۔ جذبات کی شدت میں کیا جانے والا فیصلہ پسند نہیں تھا۔ حضرت علی علیہ السلام ان لوگوں میں سے تھے جنہیں عہدہ فریب میں مبتلا نہیں کرسکتا ۔ وہ ان لوگوں میں سے نہیں تھے جو کرنسی کی چاہ میں دیوانے ہوجاتے ہیں۔ ان کی نظر میں حکومت اور خلافت کی بات تو دوران کے نزدیک پوری دنیا بکری کی چھینک کی طرح تھی۔ آپ نے فرمایا کہ میری نظر میں ایسی حکومت کی کوئی حیثیت نہیں جو حق کو قائم کرنے اور باطل کے خاتمہ سے قاصر ہو۔
اسلامی دارالحکومت مدینہ منورہ کے لوگوں نے آپ پر خلافت قبول کرنے کے لئے اتنا زور ڈالا کہ آہستہ آہستہ اس نے مظاہرہ کی شکل اختیار کرلی۔ یہ مطالبہ جماعتی حدوں سے نکل کر اجتماعی حدود کو چھونے لگا جس کے بعد امت مسلمہ کی بیعت اپنی طرف سے عائد کردہ شرائط کے ساتھ قبول کرلی۔ علی علیہ السلام نے کہا کہ یہ جان لو کہ اگر تمہاری بات قبول کر بھی لی تو وہی کروں گا جس کا مجھے علم ہوگا۔ نہ کسی کہنے والے کی بات پر کان دھروں گا۔ اور نہ ہی کسی سرزنش کرنے والے کی پرواہ کروں گا۔ امت نے فوراً اطاعت کے وعدے کے ساتھ بیعت کے لئے ہاتھ بڑھا دیئے۔ علی علیہ السلام نے اپنی حکومت کے گورنر وں اور سیاسی عہدیداروں کے لئے امت اسلام کے نظام کو بہتر طریقہ سے چلانے کے لئے ایک لائحہ عمل تیار کیا۔ (نہج البلاغہ)۔
گورنر کے لئے یہ شائستہ نہیں کہ وہ مسلمانوں کی عورتوں، ان کی دولتوں سے امیدیں لگا بیٹھے اور نہ اسے جاہل ہونا چاہے۔ اس طرح وہ لوگوں سے ظلم کی وجہ سے دور ہو جائے گا اور نہ اسے سرکاری دولت کی تقسیم میں طرفداری کرنا چاہئے۔ اس طرح وہ کچھ لوگوں کو اپنے قریب کرے گا اور کچھ لوگوں کو دور کردے گا اور نہ گورنر کو رشوت لینا چاہئے کہ اس اس طرح وہ حقوق ضائع کردے گا اور غیر مستحق کو حقوق عطا کردے گا اور نہ اسے سنتوں کو معطل کرنے والا ہونا چاہئے کہ اس طرح امت ہلاک ہوجائے گی۔ (نہج البلاغہ خطبہ نمبر 131)
حضرت علی علیہ السلام نے زمام حکومت سنبھالتے ہی دوسرا کام یہ کیا کہ ان گورنروں اور عمال کو معزول کردیا جو لوگوں پر ظلم کرتے تھے او رغلط تاکہ امت مسلمہ کے ساتھ عطا یا اور حق میں ویسا ہی برابری کا برتاؤ کیا جائے جیسا کہ نبی کریم حضرت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے تھے۔ آپ نے اعلان کر دیا کہ عنقریب بیت المال سے غصب کئے گئے تمام اموال کو واپس اسلامی خزانہ میں لے آؤں گا یہاں تک کہ اگر کسی نے اس کے ذریعہ شادی کرلی ہو یا کنیز خریدلی ہوتب بھی۔(محمد عبدہ شرح نہج البلاغہ جلد 8صفحہ 269)
امام علی علیہ السلام نے اسلامی حیات کی اصلاح اور نظام کو درست کرنے کےلئے ایسے گورنروں کا تقرر کیا جو روحانی، فکری اور احکامات خداوندی کے لحاظ سے نمونہ کی حیثیت رکھتے تھے جیسے عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ اور مالک اشتر وغیرہ۔
Hazrat Ali
حضرت علی علیہ السلام کے ان اصلاحی اقدامات کی وجہ سے جو حقیقی اسلام کی عکاسی کرتے تھے کچھ لوگوں نے آپ سے ساز باز کرنے کی بھرپور کوشش بھی کی۔ انہوں نے ولیدبن ابی معیط کو اپنا نمائندہ بنا کر علی علیہ السلام کے پاس بھیجا۔ اس نے آپ سے کہا کہ اے ابو الحسن علیہ السلام! تم نے ہم سب کو ایک دم چھوڑ دیا حالانکہ ہم تمہارے بھائی اور عبد مناف کے خاندان سے ہونے کی بنا پر تمہارے برابر ہیں۔ ہم تمہاری بیعت اس شرط پر کریں گے کہ تم عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ہمیں ملنے والی دولت ہمارے ہی پاس رہنے دو۔ اگر ہمیں تم سے خوف محسوس ہوگا تو ہم تمہیں چھوڑ کر شام چلے جائیں گے اور یہ دھمکی بھی دی کہ اگر ان کے مطالبے کو نہ مانا گیا تو ہم تمہیں چھوڑ کر شام چلے جائیں گے اور یہ دھمکی بھی دی کہ اگر ان کے مطالبے کو نہ مانا گیا تو وہ شام کے باغیوں سے جا ملیں گے لیکن علی علیہ السلام نے ان کی دھمکی پر کوئی توجہ نہ دی۔ آپ کا جواب تھا میرے نزدیک آل اسماعیل علیہ السلام کو اس مال میں آل اسحاق علیہ السلام پر کوئی فضیلت نہیں۔
حضرت علی علیہ السلام نے اپنی خلافت میں جس طرح کے نمونہ عمل عاملوں اور گورنروں کا تقرر کیا وہ سب کے سب فکری، ادارتی اور فوجی معاملات میں قدرت رکھتے تھے۔ آپ نے گورنروں کو ہمیشہ نصیحت کی کہ بندگان خدا کے درمیان عدل وانصاف کے رواج او رظلم وجور سے پرہیز کرنے کی فضا قائم کرنا۔ اس کے علاوہ اپنے عاملوں او رگورنروں کو یہ نصیحت کی کہ وہ ان چیزوں سے دور رہیں جو منصب حاصل ہونے کے بعد خود بخود پیدا ہوتی ہیں جب کہ مقام و منصف ایک عارضی حیثیت کا نام ہے۔ آپ نے محمد ابن ابوبکر رضی اللہ عنہ کے نام خط لکھا جب انہیں مصر کا گورنر مقرر کیا تھا جس میں ہدایت تھی کہ لوگوں سے انکساری اور تواضع سے ملنا۔ ان سے نرمی کاسلوک کرنا۔ چہرے کو ہشاش بشاش رکھنا۔ سب کو ایک نظر سے دیکھنا تاکہ بڑے لوگ تم سے اپنی طرفداری کی توقع نہ رکھیں اور چھوٹے لوگ تمہاری عدل سے مایوس نہ ہوں کیونکہ خدا ہر چھوٹے بڑے ،ظاہری اور ڈھکے چھپے عمل کا حساب لے گا۔ اس کے بعد اگر اس نے سزادی تو تم خود ظالم تھے اور اگر اس نے معاف کردیا تو ہو کریم تو ہے ہی( نہج البلاغہ باب مکتوت)
بصرہ کے گورنر عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ کو بصرہ کی کچھ شخصیتوں نے کھانے پر مدعو کیا۔ امام علی علیہ السلام کو جب اس کی اطلاع ملی تو انہیں خوف محسو س ہوا کہ کہیں یہ چیزیں انہیں اپنی طرف مائل کر کے اسلامی عدالت کی راہ سے نہ ہٹا دیں جس کی بنا پر وہ احکامات خدا سے دور ہو کر فیصلوں میں ظلم وستم روا رکھیں۔ علی علیہ السلام کو خط لکھا۔
ابن حنیف! مجھے اطلاع ملی ہے کہ بصرہ کے ایک نوجوان نے تمہیں کھانے پر مدعو کیا اور تم فوراً دوڑ پڑے۔ تمہارے لئے مختلف قسم کے انواع اقسام کے کھانے لائے گئے اور کھانوں سے پرسینیاں رکھی گئیں۔ میں نہ نہیں سمجھتا کہ تم ایسے لوگوں کی دعوت قبول کرو گے جو فقیروں سے دور ہوں اور امیر مدعو ہوں لہٰذا تم جو کھاتے ہو اس پر دھیان دو۔ جس چیز کے بارے میں تمہیں شبہ ہو اسے تھوک دو اور جس کی پاکیزگی کے بارے میں تمہیں یقین ہو اسے کھالو۔ جان لو کہ ہر ماموم کے لئے ایک ایسا امام لازم ہوتا ہے جس کی وہ پیروی کرے۔ اس کے علم کے نور سے روشنی حاصل کرے۔ آگاہ ہو جاؤ کہ تمہارے امام نے اپنی دنیا میں دو بوسیدہ کپڑوں اور دو روٹیوں پر ہی قناعت کرلی ہے۔ جان لو کہ تم ایسا نہیں کر سکتےل یکن تمہیں تقویٰ، جدوجہد اور پاکدامنی اور استحکام کے ذریعہ میری مدد کرنا چاہئے۔
اسی طرح علی علیہ السلام نے اپنے (اردو شیر خرق کے )گورنر کے پاس دھمکی آمیز خط بھیجا:
مجھے تمہارے بارے میں ایک بات معلوم ہوئی ہے۔ اگر تم نے اسے انجام دیا ہوگا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ تم نے اپنے پروردگار کو ناراض کردیا۔ اپنے امام کی نافرمانی کی ہے۔ تم مسلمانوں کے اموال کو اپنے عرب اقربا میں بانٹتے ہو جن کو مسلمانوں کے نیزوں او رگھوڑوں نے اپنے قبضہ میں کیا تھا اور ان کے لئے ان کے خون بہے تھے۔( 14نہج البلاغہ مکتوب 45، 15نہج البلاغہ مکتوب 43)
آپ کی خالص اسلامی طرز حکومت نے کچھ ایسے لوگوں کے مفادات کو بلا واسطہ نقصان پہنچایا جو قرابت اور خاندانی فضیلتوں کی بنا پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے درو خلافت میں ایک امتیازی حیثیت کے مالک تھے جس کے نتیجہ میں ذاتی مفادات کو نقصان پہنچنے کی وجہ سے آپ کی ذات سے کینہ رکھ کر سازشوں کا جال بننا شروع کردیا جس کے نتیجے میں آپ کی شہادت واقع ہوئی۔
حضرت علی علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ جو شخص لوگوں کی قیادت کی اہم ذمہ داری قبول کرے سب سے پہلے ذات کی تعلیم شروع کرنی چاہئے اس سے پہلے کہ وہ دوسروں کو تعلیم دے۔ اس کا فرض ہے کہ وہ اس سے پہلے زبان سے ادب سکھائے خود اپنی سیرت او راپنے کردار کو ادب سکھاتا ہے۔ وہ شخص اس سے کہیں زیادہ عزت واحترام کا حقدار ہوتا ہے جو دوسروں کو تعلیم دیتا ہے اور ادب سکھاتا ہے۔
علی علیہ السلام فرماتے ہیں پرہیز گار او رنیکو کار انسانوں کو چاہئے کہ گنہگاروں پر رحم کریں اور حق تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے ان سے چشم پوشی کریں۔ اپنے بھائی کی غیبت نہ کریں اور وہ جس جس بلا میں گرفتار ہوا ہے اس پر اس کو سرزنش نہ کریں۔ یہ سوچ لینا چاہئے کہ خود وہ بھی ایک بڑے گناہ کا مرتکب ہوتے ہیں۔ اے بندہ خدا! بندوں کے گناہ پر ملامت کرنے میں جلدی نہ کر۔ شاید خدا نے ان کو بخش دیا ہو۔
ایک خطبہ میں آپ نے ارشاد فرمایا قبل اس کے کہ تمہاری آزمائش کی جائے تم خود اپنا جائزہ لو، قبل اس کے کہ تم سے حساب لیا جائے تم خود اپنا محاسبہ کرو، قبل اس کے کہ تمہارا گلا گھونٹا جائے سانس لے لو، قبل اس کے کہ تم ناک کے بل کھینچے جاؤ خود ہی فرما نبرداری اختیار کرو اور جان لو کہ جس شخص کا دل و دماغ خود واعظ وناصح نہ ہو اس پر دوسرے کی پند و نصیحت اثر نہیں کرتی۔
سنہ 40ہجری میں 19رمضان المبارک کی تاریخ میں علی علیہ السلام کو مسجد کوفہ میں حالت سجدہ میں ایک خارجی عبدالرحمٰن بن ملجم نے زہر سے ڈوبی ہوئی تلوار کا وار سرمبارک پر کیا۔ 21رمضان کو حضرت علی علیہ السلام نجف میں دفن ہوئے۔
کوفہ سے چار میل کے فاصلے پر نجف اشرف واقع ہے۔ یہاں حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت نوح علیہ السلام کی قبریں پہلے سے موجود تھیں۔ عام لوگ اس بات سے نا واقف ہیں کہ نجف کا نام نجف کیوں پڑا؟ روایات میں ملتا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام نے طوفان سے مقابلہ کے لئے کشتی بنائی تھی اور ان کا ناخلف بیٹا پہاڑ پر چڑھ گیا تھا جو بحکم خدا ریزہ ریزہ ہو گیا اور وہاں ایک دریا جاری ہوگیا اس جگہ کو کوئے جف کہا جانے لگا جس کے معنی ہوتے ہیں خشک دریا، مگر عربی میں نجف کے معنی اونچا مقام ہوتا ہے۔