ارسلان افتحار کیس(ارسلان گیٹ) نے پورے ملک کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے ۔ افواہوں اور قیاس آرائیوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے جس نے پوری قوم کو اپنے بے رحم پنجوں میں جکڑ رکھا ہے اوراس سے رہائی کی کوئی صورت انھیں نظر نہیں آرہی۔ اگر میں یہ کہوں کہ ہر آنے والا دن ان کی تشویش میں اضافہ کا موجب بن رہا ہے تو بے جا نہ ہوگا ۔ ریاض ملک کے انکشافات نے تقدس میں لپٹے ہو ئے بہت سے بتوں کو ز مین بوس کر دیا ہے۔
بڑے بڑے پارسائوں کے چہروں سے نقاب خود بخود گر گئے ہیں اور وہ بالکل برہنہ حالت میں کھڑ ے ہیں اور پاکستانی عوام حیران و ششدر انھیں دیکھ رہے ہیں اور ان کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا کہ سٹیج کی ان کٹھ پتلیو ں کی حقیقت کیا ہے۔ انھیں یہ خیال پریشان کئے جا ر ہا ہے کہ تقدس کے وہ تمام بت جنھیں انھوں نے اپنے دل کے نہاں خانوں میں تقدس کے بڑے دلکش، خوبصورت اور ریشمی رومال میں بڑی احتیاط کے ساتھ لپیٹ کر رکھا ہوا تھا وہ بھی زمانے کی بے رحم آلو دگیوں سے آلودہ ہو چکے ہیں ۔ بحریہ ٹائون سے شہرت پانے والے ریاض ملک کی12 جون کی پریس کانفرنس میں کئے گئے انکشافات نے سپریم کورٹ میں بیٹھے ہوئے چند بڑے ناموں کی عظمتوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور عوامی کردار کے اعلی و ارفع نقوش کو اس طرح بکھیر کر رکھ دیا ہے کہ سچ کے دعویدار وںکے سارے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں۔
پلک جھپکنے میں کئی ہیروز اپنی مسند سے دھڑام سے نیچے گر گئے ہیں اور ان کے تقدس پر بڑے عجیب و غریب سوالات اٹھنے شروع ہو گئے ہیں اور انھیں اپنے دامن کو کرپشن کے کیچڑ سے بچا نا مشکل ہو تا جا رہا ہے۔ ریاض ملک کی پریس کانفرنس کے بعد سچ اور جھوٹ میں تمیز کرنا مشکل ہو گیا ہے اور کردار کی خود ساختہ عظمتوں پر لوگوں کا اعتبار اٹھتا جا رہا ہے کیونکہ ریاض ملک کی پریس کا نفرنس میں کئے گئے انکشافات نے عظمت کا لبادہ اوڑھے ہوئے بہت سے چہروں کو بے نقاب کر کے ان کے اصلی چہرے دکھا دئے ہیں اور یہ سلسلہ روز بروز دراز سے دراز تر ہو تا جا رہا ہے۔
تاریخِ انسانی کے ابتدائی ایام سے ہی انسانوں نے اپنے جیسے دوسرے انسانوں کو دیوتا کی مسند پر بٹھانے کا آغاز کر دیا تھا اور دیوتا بنا نے کی یہ روش آج تک قائم ہے اور مجھے یقین ہے کہ یہ اسی طرح جاری و ساری رہے گی کیونکہ یہ انسانی فطرت کا خاصہ ہے اور انسانی فطرت یوں اچانک بدلا نہیں کرتی ۔ یہ سچ ہے کہ کچھ لوگوں کو خدا نے خصوصی صلاحیتوں سے نوازا ہو تا ہے اور ان کی یہی خصوصیات انھیں دوسرے انسانوں سے نمایاں اور ممتاز کرتی ہیں۔
اپنی ان خدا داد صلاحیتوں کی وجہ عوام ان کے مقام اور مرتبے کا تعین کرتے ہیں اور ان سے اپنی محب کا اظہار کرتے ہیں۔ کچھ انسان اپنے چاہنے والوں کی بے پایاں محبت پا کر خودسر ہو جاتے ہیں اور اپنے مقام سے لڑھک جاتے ہیں اور کچھ انسان اس محبت کی قوت سے ، انسانیت کی سر بلندی۔ مساواتِ انسانی اور تکریم انسان کے اعلی و ارفع اصولوں کی خاطر خود کو وقف کر دیتے ہیں اور یوں ایک نئے کردار کے حامل بن کر دیوما لائی داستانوں میں ایک انمٹ باب کی حیثیت سے ہمیشہ کیلئے زندہ و جاوید ہو جاتے ہیں۔
انسانی تاریخ ایسے ہی نابغہ روزگار انسانوں کی خوبصورت اور پر عزم داستانوں سے مزین ہے جو آنے والے انسانوں کو ان کی قائم کردہ عظمتوں سے دنیا کی نئی صورت گری کے لئے روشنی عطا کرتی ہے اور انسانیت کو آگے بڑھنے کا حوصلہ عطا کرتی ہے۔اس کرہِ عرض پر روزانہ ہزاروں انسان پیدا ہوتے ہیں اور روز انہ ہزاروں انسان لقمہِ اجل بن جاتے ہیں اور انسانی آ مدورفت کا یہ سلسلہ ا زل سے ابد تک ایسے ہی جاری و ساری رہے گا ۔ یہ ایک ابدی حقیقت ہے کہ ہر انسان کو وقتِ مقررہ پر اس دنیا سے رخصت ہو جانا ہے لیکن خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو دیو تا کی مسند سے ہی اس دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔ کہتے ہیں سچائی کے پیکر وں کو کبھی موت نہیں آتی، سچائی ہمیشہ زندہ رہتی ہے اور سچائی کی اصلی گواہی ہمیں ان انسانوں کے افعال و کردار سے ملتی ہے جو انسانیت کے خادم بن کر نمو دار ہو تے ہیں اور اپنی زندگی کا سارا سفر اسی خدمت کی نذر کر دیتے ہیں۔
Iftikhar Muhammad Chaudhry
نو مارچ2006 پاکستانی تاریخ میں ایک ایسے دن کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا جب جنرل پرویز مشرف نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتحار محمد چوہدری کو ان کے عہدے سے سبکدوش کر دیا تھا کیونکہ افتحار محمد چوہدری نے جنرل پرویز مشرف کی خو اہش پر مستعفی ہونے سے انکار کر دیا تھا۔ پاکستانی عوام کو ایک آمر کے سامنے چوہدری افتحار محمد کے استعفی نہ د ینے کی یہ ادا اتنی پسند آئی کہ وہ پلک جھپکنے میں ایک ہیرو کی مسند پر جلوہ افروز ہو گئے اور پورا ملک ان کی محبت کا اسیر ٹھہرا۔پاکستانی وکلاء نے افتحار محمد چوہدری کی اس ادا کو پاکستان میں عدلیہ کی آزادی سے تعبیر کر دیا اور افتحار محمد چوہدری کی بحالی کیلئے علمِ بغاوت بلند کردیا۔
نو مارچ سے جنرل پرویز مشرف اور و کلا ء کے درمیان ایک نئے معرکے کا آغاز ہو گیا۔وکلاء ججز اور قانون دان حلقوں نے افتحار محمد چوہدری کی حما ئت میں عدلیہ کی ایسی تحریک کا آغا زکر دیا جسے آنے والے دنو ں میں ایک نئے پاکستان کی بنیاد بننا تھا ۔بیرسٹر اعتزاز احسن ، اطہر من اللہ، منیر احمد خان اور علی محمد کرد عدلیہ کی آزادی کے کارواں کے سپہ سالار بن کر ابھرے اور پوری جرات اور عزم کے ساتھ اس تحریک کی کامیابی کی خاطر جنرل پرویز مشرف کی آمریت کے سامنے کوہِ گراں بن کر ڈٹ گئے اور اس راہ میں ہر طرح کی تکالیف بڑی ہمت سے برداشت کیں۔
لاٹھی چارج ،آنسو گیس ،تشدد ،جیلیں اور صعوبتیں ان سب کا مقدر بنیں لیکن انھوں نے عدلیہ کی آزادی کے اس سفر سے پیچھے ہٹنے سے انکار کر دیا۔ علی محمد کرد کا اندازِ خطابت بھی لوگوں کیلئے بڑی کشش سمیٹے ہوئے تھا اور وکلاء تحریک کو نئی توانائی عطا کر رہا تھا۔بیرسٹر اعتزاز احسن کا حوصلہ ان کی نظمیں اور ان کی فراست وکلاء تحریک کی جان تھیں۔ حتی کہ انھوں نے وکلاء تحریک کی کامیابی کی خاطر اپنی پارٹی سے بھی راہیں جدا کر لیں تھیں اور اپنے موقف سے ہٹنے سے انکار کر دیا تھا ۔ سیاسی جماعتیں اس موقعہ پرپیچھے رہنے والی کہاں تھیں۔ انھوں نے بھی جنرل پرویز مشرف کے خلاف اپنی جدو جہد کو تیز کر دیا۔ پی پی پی اس تحریک میں پیش پیش تھی اور اس تحریک میں سردار لطیف کھوسہ (گورنر پنجاب) کے سر پر پولیس کے بے رحمانہ تشدد سے بہنے والا لہو اس تحریک کے لئے تقویت کی علامت بن گیا تھا۔
benazir bhutto
تحریکِ انصاف، مسلم لیگ (ن) جماعت اسلامی اور کچھ دوسری جماعتوں نے بھی وکلاء تحریک کا بھر پور ساتھ دیا ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں محمد نواز شریف ملک سے باہر تھے اور جنرل پرویز مشرف نے ان کے ملک میں داخلے پر پابندی عائد کر رکھی تھی لہذا ان کے لئے یہ سنہری موقع تھا کہ وہ وکلاء تحریک کی پشت پناہی کریں تا کہ جنرل پر ویز مشرف ان کی ملک میں داخلے کی راہیں کھولنے پر مجبور ہو جائے ۔محترمہ بے نطیر بھٹو نے اسی خیال کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے پاکستان میں اپنی واپسی کا اعلان کر دیا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے اس جر ات مندانہ اور واشگاف اعلان نے کہ وہ افتخار محمد چوہدری کے گھر پر اپنے ہاتھوں سے چیف جسٹس کا جھنڈا لگائیں گی پی پی پی کی عدلیہ سے یک جہتی کا سب سے بڑا اظہار تھا۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کے اعلان کے بعد پی پی پی عدلیہ کی بحالی کے لئے مزید فعال ہو گئی اور اسلام آباد میں اسکے اٹھا رہ کارکنوں کی شہادت اس بات کا واضح ثبوت تھا کہ پی پی پی وکلاء تحریک کی کامیابی کو اپنے لہو سے رقم کر رہی تھی ۔ وکلاء تحریک کئی ماہ جاری و ساری رہی اور وکلاء برادری اور سیاسی جما عتیں ساری مشکلات کو خندہ پیشانی سے برداشت کرتی رہیں۔۔۔ 2007 ملک میں انتخابات کا سال تھا اور پاکستان پیپلز پار ٹی ملک کی بڑی سیاسی جماعت ہونے کی حیثیت سے ان انتخابات میں فتح کی امیدیں لگائی بیٹھی تھی۔
لاہور جہاں ے اعتزاز احسن ا نتخاب میں حصہ لے کر کامیاب ہوا کرتے تھے وہاں سے قومی اسمبلی کی ایک نشست کیلئے پی پی پی کی چیر پرسن محترمہ بے نظیر بھٹو نے ا نھیں پارٹی ٹکٹ بھی جاری کر دیا تھا لیکن وکلاء تحریک کے انتخابی بائیکاٹ کی وجہ سے بیرسٹر اعتزاز احسن نے ا نتخابات سے دستبرداری کا اعلان کر کے اپنی پارٹی قیادت کی ناراضگی مول لے لی تھی کیونکہ وکلاء تحریک سے ان کی وفاداری ان کی سیاسی وفادادی سے زیادہ مضبوط اور گہری تھی کیونکہ وہ وکلاء تحریک کا سپہ سالار تھا لہذا انھوں نے وکلا تحریک کی یکجہتی کی خا طر اپنی قیادت سے انتخابا ت میں شرکت سے معذرت کر لی تھی اور یوں وہ الیکشن میں حصہ نہ لے سکے تھے جس کا انھیں ہمیشہ افسوس رہا کرتا تھا کیونکہ وہ وکلاء تحریک کے انتخابی بائیکاٹ کے حق میں نہیں تھے۔
انکی خواہش تھی کہ وکلاء انتخاب میں حصہ لے کر پارلیمنٹ کا حصہ بنیں تا کہ ان کی آواز مزید توانا اور مضبوط ہو لیکن ان کی اس رائے سے وکلا تحریک کے دوسر ے قائدین نے اختلاف کیا لہذا انھوں نے خود کو وکلاء تحریک کے اجتماعی فیصلے کے سامنے سرنگوں کر کے جس روائت کا آغا ز کیا تھا وہ بھی قابلِ تحسین تھی ۔آجکل اسی اعتزاز احسن پر ذاتی مفادات کی خاطر اپنے ضمیر کا سودا کرنے اور وکلا تحریک سے غداری کرنے کے الزامات لگ رہے ہیں جن میں رتی برابر بھی صداقت نہیں ہے کیونکہ بیرسٹر اعتزاز ا احسن بکنے اور جھکنے والا شخص نہیں ہے ۔ وہ جو بات بھی کرتا ہے ڈنکے کی چو ٹ پر کرتا ہے ۔ وہ نہ تو کسی سے خوف زدہ ہو تا ہے اور نہ ہی کسی سے مرعوب ہو تا ہے۔ اسکا ضمیر سچ کی جانب اس کی ہمیشہ راہنمائی کرتا ہے اور وہ بے خوف و خطر اپنے فر ض کی بجا آوری میں جٹا رہتا ہے ۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی عدالت میں پیش نہ ہونے کا فیصلہ اس کا ذاتی فیصلہ تھا ۔ قانون اسے ایسا کرنے کا کسی صورت بھی پابند نہیں کرتا تھا لیکن اس نے قانون کی شفافیت اور سر بلندی کی خاطر یہ فیصلہ کیا تھا تاکہ اسکی ذات پر چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی دوستی کی چھاپ نہ لگ جائے اور قانون و ا نصاف کی جنگ لڑنے پر جانبداری اور دوستی آڑے نہ آ جائے۔ اس کا تنہا یہی ایک فیصلہ اسکی ذات کی عظمتوں کو سمجھنے کیلئے کافی ہے۔
aitzaz ahsan
ایک ایسا معاشرہ جس میں کرپشن اور دولت کا حصول ایک ناسور کی شکل اختیار کر چکا ہے اس معاشرے میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے نام پر بیر سٹر اعتزاز احسن کروڑوں روپے کما سکتا تھا اور چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سے اپنی دوستی کو کیش کروا سکتا تھا لیکن اس نے اس کے بر عکس فیصلہ کر کے سب کو مات دے ڈالی تھی ۔ اس کے کردار کی یہی عظمت ہے جسکی وجہ سے پاکستان کے عوام اس سے محبت کرتے ہیں اور اسے ایک اصول پسند شخص کی حیثیت سے عزت و احترام سے نوازتے ہیں لیکن اگر پھر بھی کسی نے اس کے خلاف زہر اگلنا ہے تو پھر سانپوں کو ایسا کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
ابو ظبی کے مایہ ناز شاعر یعقوب تصور نے سانپ نما انسانوں کی نفسیات کو کس د لکش انداز میں بیان کیا ہے پڑھیے اور سر دھنیے۔۔(جاری ہے)تحریر : طارق حسین بٹ