گزشتہ ماہ جون میں ہمیں دو بڑے سانحات کا سامنا کرنا پڑا۔٢٠ جون ٢٠١٢ء بدھ کو مداح صحابہ معروف عالم دین حضرت مولانا محمود احمد غضنفر بورے والا میں اور٢٤ جون٢٠١٢ء کو ولی کامل ، بقیة السلف حضرت مولنامحمد عطاء اللہ امرتسری فیصل آباد میںانتقال کرگئے ۔اناللہ وانا الیہ راجعون۔ مولانا محمود غضنفر ، حضرت مولانا محمود احمد میرپوری سابق ناظم اعلیٰ مرکزی جمعیت اہل حدیث برطانیہ کے علمی وتدریسی رفیق اور ہم عمر تھے۔ ان کی ولادت 1945 لدھیانہ میں ہوئی، نقل مکانی کے بعدآپ فیصل آباد کے نواحی گاؤں ڈگورا متصل ٹھیکری والا میں قیام پذیر ہوگئے ۔ جہاں پرائمری پاس کرنے کے بعد1958سے 1965تک جامعہ سلفیہ فیصل آباد سے اکتساب فیض کیا ۔آپ کے اساتذہ میںحضرت العلام حافظ محمدمحدث گوندلوی ، شیخ الحدیث حضرت مولانا عبداللہ بڈھیمالوی ، حضرت مولانا پیرمحمدیعقوب قریشی، حضرت مولانا حافظ احمد اللہ چھتوی،حضرت مولانا علی محمد جانباز، حضرت مولانا عبدالغفار حسن ، حضرت مولانا علی محمد حنیف، حافظ محمدبنیامین ، حضرت مولانا کرم الدین، حضرت مولانا گوہرالرحمن جیسے جید علماء وشیوخ الحدیث شامل ہیں ۔ مولاناغضنفرعلیہ الرحمہ 1970تک جامعہ تعلیمات اسلامیہ فیصل آباد میں پڑھاتے رہے ۔ جہاں انہیںاعلی تدریسی خدمات پر اشرف گولڈمیڈل سے نوازا گیا۔
1970میں سعودی دارالافتاء کے مبلغ کی حیثیت سے آپ لاہور آگئے ۔ جہاں آپ نے مرکزی جمعیت اہل حدیث کی تنظیم نومیں بنیادی کردار ادا کیا ۔اور جامعہ مزمل مسجد بندروڈ لاہوراور مسجد ریاض الجنة لاہورکی تعمیرمیں حصہ لیااور یہاں چودہ چودہ سال تک بلامعاوضہ خطابت کے فرائض سرانجام دیے ۔ مولانا غضنفرہفت روزہ اہل حدیث لاہورکے مدیر معاون رہے۔ انہوں نے متعدد مقالے اور کتابیں تصنیف کیں ترجمہ قرآن اور تفسیرضیاء البیان کے نام سے قرآن کی تفسیر بھی لکھی ۔ انہیں زیادہ شہرت ان کے مدحت صحابہ پر تصنیفی کام کی وجہ سے ملی ۔اس سلسلہ انہوں نے اپنی تصنیفات کے ساتھ ساتھ عربی زبان میںاس موضوع پر لکھی گئی کتابوں کاترجمہ کیا۔ان کی شہرہ آفاق تصنیفات میں حیات صحابہ کے درخشاں پہلو ، حیات صحابیات کے درخشاں پہلو، حیات تابعین کے درخشاں پہلو ،جرنیل صحابہ،حکمران صحابہ ، مبشرصحابہ ، فقہائے مدینہ ، (علماء وتابعین) صحابیات مبشرات ، خواتین اہل بیت ، صحابیات طیبات ، گلشن رسالت کی مہکتی کلیاں ، ، عشرہ مبشرہ ، علماء صحابہ ،زوجات صحابہ ، قصص النساء فی القرآن الکریم ہیں ۔
Hafiz Abdul Aala
مولانا غضنفرنے سیرصحابہ کے علاوہ بھی کافی تصنیفی کام کیا مثلاً مسلم معاشرہ قرآن وسنت کی روشنی میں، رمضان ماہ غفران ، ضیاء الکلام شرح عمدة الاحکام ، عمدة الاحکام(اردوترجمہ) حیات انبیاء علیہم السلام ، کتاب لالمام باحادیث الاحکام علامہ ابن دقیق العید۔ احادیث قدسیہ ،نبیوں کے قصے ،احادیث الجہاد، کتاب الکبائر، عہدتابعین کی جلیل القدرخواتین، اسول دین، حج و عمرہ ،دین کے چاربنیادی اصول،عقیدہ طحاویہ،سگریٹ نوشی،نکاح شغار،میدان عمل میں اختلاط مردو زن ،سورہ فاتحہ ، ترجمہ و تفہیم،سورہ یاسین ،بغداد کا تاجراوربچوں کی عدالت،فضائل قرآن، مسلمان اور احکام شریعت ،شمائل محمدیہ، تفسیرضیاء البیان۔علاوہ ازیں روزنامہ امت کراچی نے ان کی کتاب” حیات صحابہ کے درخشاں پہلو ”کومکمل قسط وار شائع کیا۔روزنامہ پوسٹ مارٹم لاہور نے” جرنیل صحابہ” کومکمل شائع کیا ۔ 1990میں انہوں نے لاہور سے دعوة الحق نامی پرچہ بھی نکالاجس میں کویت نمبرتین سوصفحات اور نجدوحجاز نمبرپانچ سوصفحات مولانا محمود احمد غضنفرنے بھرپور علمی زندگی گزار ی ۔وہ عزم و ہمت کا پیکر تھے۔ ١٩٨٢میں انہوں نے لاہور میں جامعہ الفیصل الاسلامیہ اعوان ٹاؤن کے نام سے مدرسہ بنایاجس میں تین سو فلپینی طلبہ کے علاوہ انڈونیشیا، الجزائر، حرزالقمراورافغانستان کے طلبہ نے استفادہ کیا۔
1979میں حکومت سعودیہ کی دعوت پر حج ادا کیا۔ حضرت مولانا محمد حسین شیخوپوری ،حضرت مولانا خلیل حامدی ،حضرت علامہ احسان الٰہی ظہیر، حضرت مولاناغلام اللہ خان اور میجر محمد اسلم شہیدحج کے رفقاء تھے مولانا محمد احمد غضنفرعلیہ الرحمہ نے متعددبار بیرونی دورے کیے۔جن میںبرطانیہ ، متحدہ عرب امارات ،کویت ، سعودی عرب،بھارت،فلپائن ، افغانستان شامل ہیں۔1993میں مولانا محمود برطانیہ آئے تو میرے ہاں بریڈفورڈ بھی قیام کیا یہاں خطبہ جمعہ بھی دیا۔ان کے ایک بھائی ڈاکٹر عبدالحلیم لودھراں جمعیت اہل حدیث کے امیرہیں ۔ اور محترم پروفیسر عبدالرحمن لدھیانوی آپ کے قریبی عزیزہیں ۔2003میں ان پرفالج کا حملہ ہوا ۔ علالت کے باوجود آپ تصنیفی کام میں مشغول رہے ۔ راقم نے شیخوپورہ میں ان کی رہائش گاہ پر طاہرنقاش کے ہمراہ عیادت کی۔ انہوں نے بڑے حوصلے کے ساتھ مرض کی تکالیف برداشت کیں ۔
٢٠ جون کی صبح بوریوالہ میں ان کا انتقال ہوا ۔ ان کی میت کو فیصل آباد منتقل کیا گیا اور ان کے آبائی گاؤں ڈگوراٹھیکری والا ضلع فیصل آبادمیں جنازہ اور تدفین کی گئی ۔ اللہ تعالی ان کی مغفرت فرمائے اور اعلی علیین میں جگہ دے ۔ ممدوح صحابہ ہونے کے ناطے انہیں رفاقت حسنہ عطا فرمائے ۔ معروف جماعتی ودینی شخصیت،بقیة السلف مولانامحمد عطاء اللہ امرتسری اتوار٢٤جون کی صبح فیصل آباد میں انتقال کرگئے ۔ آپ برطانیہ کی معروف علمی شخصیت، مدیر و خطیب جامع محمدی مسجد کیتھلے ویسٹ یارکشائر مولانا حافظ عبدالاعلےٰ درانی کے والدگرامی تھے۔ ان کی عمر٧٥ برس تھی ۔ انہوں نے امرتسرکے مشہور ولی کامل مولنا نیک محمد اور مولانا محمد عبداللہ ویروالوی سے کسب فیض کیا۔آپ کا شمارمولانا ثناء اللہ امرتسری اور مولانا ابراہیم میرسیالکوٹی، مجاہد کبیر حضرت سیدداؤد غزنوی، حضرت العلام مولنامحمد عطاء اللہ حنیف کے خاص ارادتمندوں میں سے تھا۔ کمسنی کے باوجود انہوں نے قیام پاکستان کی تحریک میں بھرپور حصہ لیا۔ ہجرت کے بعد آپ کا خاندان چنیوٹ اور پھر فیصل آباد میںقیام پذیر ہوگیا۔انہوں نے ہمیشہ عقیدہ توحید وسنت کا دفاع کیااورپاکستان و نظریہ پاکستان کو حرزجان جانا۔ مزید براں آپ نے چنیوٹ، فیصل آباد، لاہور اور شیخوپورہ میں بھی مساجد و مدارس کی تعمیر میں سرگرمی سے کام کیا ۔مولانا عطاء اللہ مرحوم بڑے صالح تہجدگزار اورولی اللہ انسان تھے ۔
حضرت العلام مولناعطاء اللہ حنیف ، مولنامحمد حسین شیخوپوری ، مولاناعبدالشکورشاہ صاحب اثری، مولانا محمد عبداللہ بورے والا، حافظ محمد ابراہیم کمیرپوری ، حافظ مشتاق پرواز ، حضرت مولنامحمد علی صمصام رحمہم اللہ کے ساتھ ان کاخصوصی تعلق تھا۔۔ مولاناعطاء اللہ سنت کی اتباع کا جذبہ سلف صالحین کی طرزپر رکھتے تھے ۔ ساری عمرانہوں نے کسی سے قرض نہیں لیااور جنہیں دیا ان سے تقاضا نہیں کیا ۔ تہجدکامعمول زندگہی بھررہاحافظ عبدالاعلےٰ کے بقول انہوں نے بڑی بڑی سورتیں اباجی سے راتوں کوسن سن کرحفظ کرلی تھیں ۔ آپ بہت خاموش طبع تھے، لایعنی باتیں کیں نہ سنیں بلکہ ساری زندگی بے تکلفی سے قہقہہ لگاکرنہیں ہنسے ۔ من حسن اسلام المرء ترکہ مالایعنیہ کی سچی تصویرتھے ۔صفات اولیاء میں سے من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ پرپوری طرعمل پیرارہے ان کی زبان یاہاتھ سے کسی کو تکلیف نہیں پہنچی۔۔ علاج معالجہ میں بھی وہ روحانی پہلو کو ترجیح دیتے تھے ،ہلکی پھلکی تکلیف میں وہ روزے رکھنا شروع کردیتے جب تک تکلیف ختم نہ ہوجاتی اس وقت تک روزہ رکھے رہتے۔ یہی وجہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ہرقسم کے ا مراض سے محفوظ رکھا۔زندگی کے آخری دن بھی وہ ہسپتال جانے پر آمادہ نہیں ہوئے ۔ وہ ہمیشہ سنت ابراہیمی کی متابعت کرتے ہوئے اپنی اولاد کو دین سے وابستہ رہنے کی تلقین کیاکیاکرتے تھے۔اسی لیے ان کی اولاد میں حافظ قرآن ، فاضل مدینہ یونیورسٹی اور مفسر قرآن شامل ہیں۔
انہوں نے ساری زندگی اولادسے کوئی دنیوی کام نہیں لیاکیونکہ انہوں نے اپنے رب سے یہی وعدہ کیا تھا جسے آخروقت تک نبھائے رکھا۔پچھلے سال رمضان المبارک میں ان کے سب سے چھوٹے بیٹے قاری خلیل الرحمن کاانتقال ہوگیا جسے انہوں نے بہت محسوس کیا۔ تین ماہ بعد ان پر فالج کا ہلکا سا حملہ ہوا۔چھ سات ماہ بسترعلالت پررہے اور٢٤جون کی صبح آٹھ بجے جان جان آفرین کے سپردکردی ۔پسماندگان میں تین بیٹے حافظ عبدالاعلےٰ ، قاری عبدالرحمن ، قاری حبیب الرحمن اور ایک بیٹی چھوڑی ہے ۔
ان کی نمازجنازہ اسی شام کواداکی گئی اور منصورآبادمیں تدفین ہوئی ۔ غائبانہ نمازجنازہ برطانیہ کی کئی مساجدمیں ادا کی گئی ۔ان کی وفات پرمرکزی جمعیت اہل حدیث برطانیہ کے رہنماؤں ڈاکٹرصہیب حسن ، ڈاکٹر خرم بشیر ، الشیخ الہیثم الحداد، مولانا ابوسعید، مولانا عبدالہادی العمری، مولانا شعیب احمد میرپوری ، مولانا حفیظ اللہ خان،برادر عبدالرزق، ڈاکٹرعبدالرب ثاقب ، مولانا عبدالرزاق مسعود ، مولانا شفیق الرحمن شاہین،مولانا ابراہیم میرپوری اوردیگر دینی وسیاسی رہنماؤں نے اظہارافسوس کرتے ہوئے مرحوم کے درجات کی بلندی کیلئے دعاکی کہ اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں اعلی مقام عطافرمائے۔حافظ محمد عبدالاعلےٰ کا فون نمبر00447828608241ہے ۔
تحریر:حافظ محمد عبدالاعلےٰ درانی ۔ بریڈفورڈ۔ برطانیہ