انتخابات کا اعلان ہونے سے قبل ہی ملک کے دیگر حصوں کی طرح ضلع مانسہرہ کے انتخابی حلقہ این اے 20میں بھی سیاسی سرگرمیاں شروع ہو چکی ہیں۔ اس حلقہ کی سیاست گزشتہ کئی سالوں سے سردار محمد یوسف کے زیرِ اثر ہے لیکن اب کی بار اعظم خان سواتی بھی اس حلقے سے الیکشن لڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں جبکہ دوسری طرف کیپٹن (ر) صفدر نے وادی کونش کے پرفضاء مقام چھترپلین میں ورکرز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے یہ مژدہ سنا دیا ہے کہ میاں محمد نواز شریف بھی آئندہ الیکشن حلقہ این اے 20سے لڑیں گے۔ اس طرح یہ حلقہ الیکشن کا اعلان ہونے سے قبل ہی انتہائی اہمیت کا حامل بن گیا ہے۔ سردار محمد یوسف نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز ڈسٹرکٹ کونسل کے ممبر کی حیثیت سے 1979ء میں کیا۔
اس کے بعد وہ دو بار ممبر صوبائی اسمبلی اور پھر تین بار ممبر قومی اسمبلی بنے جبکہ بعد میں جیسے ہی پرویز مشرف حکومت نے ممبرانِ اسمبلی کے لیئے گریجویٹ ہونے کی شرط رکھی تو اس شرط پر پورا اُترنے کے سبب انہوں نے اپنے بیٹے سردار شاہجہان یوسف کو میدان میں اُتار لیا جو 2002ء اور 2008ء میں اس حلقہ سے ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے جبکہ خود سردار محمد یوسف بعد میں ضلع ناظم مانسہرہ بنے اور تاحال وہ مانسہرہ کی سیاست میں سرگرم ہیں۔ اب چونکہ آئندہ ہونیوالے انتخابات کو گریجویشن کی شرط سے استثنیٰ حاصل ہے اس لیئے سردار یوسف یقینا خود الیکشن لڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں جبکہ مانسہرہ میں اُنکے سب سے بڑے سیاسی حریف اعظم سواتی ارب پتی ضرور ہیں مگر سیاست میں ابھی نئے ہیں۔
اعظم سواتی نے 2001ء میں اُس وقت شہرت حاصل کی جب وہ مانسہرہ کے نامی گرامی سیاسی پنڈتوں کو شکست دیکر واضح اکثریت سے ضلع ناظم بنے۔ ضلع ناظم رہ کر انہوں نے جہاں ہزارہ یونیورسٹی بنائی وہاں ریکارڈ ترقیاتی کام بھی کروائے جبکہ بعد ازاں وہ ضلع ناظم کی نشست چھوڑ کر جمعیت علماء اسلام (ف) کے ٹکٹ پر سینیٹر اور پھر وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی بنے۔ اب وہ تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے شاید پہلی بار کسی نشست سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔
Azam Khan Swati
اعظم خان سواتی کی حلقہ این اے 20میں جاری سیاسی سرگرمیاں جہاں سردار یوسف گروپ کے لیئے پریشانی کا باعث بن رہی ہیں وہاں کیپٹن (ر) صفدر بھی مانسہرہ کی سیاست میں سردار یوسف کا راستہ صاف دیکھنا چاہتے ہیں کیونکہ کیپٹن (ر) صفدر کا تعلق مانسہرہ سے ہونے کے باوجود ن لیگ نے انہیں پنجاب سے رکن قومی اسمبلی منتخب کرایا ہے جبکہ نواز لیگ مانسہرہ میں اپنی سیاسی ساکھ بحال کرنے کے لیئے سردار محمد یوسف کو ”آئوٹ” کرکے کیپٹن (ر) صفدر کو ”اِن” دیکھنا چاہتی ہے۔
شاید یہی وجہ ہے کہ کیپٹن (ر) صفدر نے اس حلقے سے میاں محمد نواز شریف کے الیکشن لڑنے کا تاثر دے کر اپنا راستہ ہموار کرنے کی کوشش کی ہے اور عین ممکن ہے کہ الیکشن کے موقع پر میاں محمد نواز شریف اپنے داماد کیپٹن (ر) صفدر یا اُن کے بھائی حاجی طاہر کی نامزدگی کا اعلان کر دیں کیونکہ اس وقت کیپٹن (ر) صفدر مانسہرہ کے دونوں انتخابی حلقوں میں سرگرم ہیں۔
اعظم سواتی نے پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہونے کے بعد مانسہرہ سے جمعیت علماء اسلام اور سردار یوسف گروپ کا صفایا کرنے کے لیئے جوڑ توڑ شروع کر رکھی ہے۔ سردار یوسف گروپ اعظم سواتی کی سرگرمیوں سے کافی پریشان دکھائی دیتا ہے اور اسی وجہ سے اس گروپ کے ن لیگ اور جمعیت علماء اسلام سے جاری رابطے ابھی تک نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئے۔
سردار یوسف کو اپنی برادری کے ووٹوں پر ناز ہے لیکن اب وہ بھی دور ہوتی جا رہی ہے اور اگر وہ بروقت کوئی فیصلہ کرتے ہوئے جمعیت علماء اسلام میں شمولیت اختیار کر لیتے ہیں تو پھر ایک مضبوط اُمیدوار بن کر سامنے آ سکتے ہیںکیونکہ اس حلقہ میں جمعیت علماء اسلام کا ایک بڑا ووٹ بنک ہے جبکہ تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرنے کے بعد اعظم سواتی کو بھی جمعیت کی مخالفت کا سامنا ہے۔ ماضی میں ہزارہ کو ن لیگ کا گڑھ سمجھا جاتا رہا ہے لیکن بعد میں پارٹی کی غلط پالیسیوں کی بدولت تاحال ن لیگ کو بھی یہاں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔
voting Pakistan
گزشتہ انتخابات میں این اے 20سے ن لیگ کے لیفٹیننٹ جنرل (ر) صلاح الدین ترمذی ق لیگ کے سردار شاہجہان یوسف کے مقابلے میں صرف چند سو ووٹوں کے فرق سے ہارے لیکن اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے صوبے کے نام کی تبدیلی اور این اے 21کے ضمنی انتخابات میں مرحوم فیض محمد خان کی بیٹی سے ٹکٹ واپس لے کر کیپٹن (ر) صفدر کے بھائی کو دینے جیسے فیصلوں کے بعد ہزارہ میں اس جماعت کا ووٹ بنک بھی کافی متاثر ہو چکا ہے اور انتخابات سے قبل ہی اس خلاء کو پُر کرنے کے لیئے کیپٹن (ر) صفدر متحرک ہو چکے ہیں۔
سردار محمد یوسف دو بار ممبر صوبائی اسمبلی، تین بار ممبر قومی اسمبلی جبکہ بعد میں ضلع ناظم کے عہدے پر برجمان رہے جبکہ دو بار اُن کے بیٹے شاہجہان یوسف ایم این اے منتخب ہوئے لیکن اُن کے سیاسی مخالفین کے مطابق سردار یوسف نے اس عرصہ کے دوران صرف اپنی برادری کو ہی نوازا اور دیگر علاقوں کو یکسر نظرانداز کیا اور اب چونکہ سردار یوسف مشکل میں ہیں تو انہوں نے نظرانداز علاقوں کا بھی رُخ کرنا شروع کر دیا ہے۔ اعظم سواتی تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے سردار یوسف کو ضلع کی تقدیر بدلنے کے لیئے ناظم بنایا تھا لیکن انہوں نے صرف اپنے ہی گائوں جالگلی کیلئے آٹھ روڈ بنائے۔
این اے 20کے عوام کو یہی گلہ نواز لیگ، پی پی پی اور جے یو آئی سے بھی ہے کہ ان جماعتوں کے اُمیدوار الیکشن مہم کے دوران نظر تو آتے ہیں لیکن انتخابات ہونے کے فوری بعد منظر سے غائب ہو جاتے ہیں جبکہ اعظم خان سواتی چونکہ پہلی بار کسی سیاسی جماعت کے پلیٹ فارم سے الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں اس لیئے فی الحال وہ عوامی گلے سے بری الذمہ دکھائی دیتے ہیں۔ ضلع ناظم مانسہرہ رہتے ہوئے اعظم خان سواتی نے ہزارہ یونیورسٹی بنانے سمیت کئی ایسے اچھے اقدامات کئے کہ جن کی وجہ سے وہ نہ صرف شہرت حاصل کر چکے ہیں بلکہ آئندہ انتخابات میں مانسہرہ کے عوام کے لیئے اُمید کی ایک کرن بھی بن چکے ہیں جبکہ اعظم سواتی کی جو خوبی انہیں مانسہرہ کے دیگر سیاست دانوں سے ممتاز کرتی ہے وہ اُن کا اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونا ہے۔ تحریر: نجیم شاہ