” کوئی مجھے دو گھونٹ پلا دے۔ ارے کوئی جو میری کروٹ بدل دے جسم دکھ رہا ہے۔ اللہ کا واسطہ کوئی مجھے ایک روٹی کا ٹکڑا دے دے۔” ایسی آوازیں اماں جنت کی گلی سے گزرو تو آخری سائے تک پیچھا کرتی تھیں۔ کچھ تو ازراہ ہمدردی اندر جھانک لیتے اور کچھ سنی ان سنی کر کے گزر جاتے کیونکہ یہ تو روز کا واویلا تھا۔ لوگ اسکے نزدیک جاتے ہوئے بھی ڈرتے اور تو اور اسکا اپنا نازوں پلا اکلوتا بیٹا ماں کو تڑپتا دیکھ کر یوں گزر جاتا گویا کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ بہو بھی سارا دن اونچی آواز میں ٹی وی یا ڈیک چلائے رکھتی تاکہ اماں کے شور سے اسکا مزا کرکرا نہ ہو۔ وہ نت نئے پکوان پکاتے اور کھاتے مگر کسی کو اماں کا دھیان نہ آتا جو ایک ٹکڑے کیلئے سارا دن تڑپتی رہتی وہ بھوک اور کمزوری کی وجہ سے بیہوش ہو جاتی۔ بہو اس حالت کو عموماً اماں کا ڈرامہ قرار دیتی۔ بہو آواز اور مزاج کی اتنی تیز تھی کہ کوئی اسکے ہوتے ہوئے اماں کی چارپائی کے قریب بھی نہ پھٹک سکتا کہیں وہ ناراض نہ ہو جائے۔
آخر اسکے ساتھ یہ سب کیوں ہو رہا ہے؟ کیا اللہ تعالیٰ کو اسکے حال پر رحم نہیں آتا؟ میں یہ اکثر سوچا کرتی اور سب سے پوچھتی۔ آخر ایک دن میری دادی جان نے اس راز سے پردہ اٹھا دیا۔ وہ اماں جنت کی ہم عمر تھیں۔
dadi amma
دادی جان نے بتایا کہ اماں جنت کی ساس بی بی زہرہ ایک نیک فطرت خاتون تھیں۔ وہ سب کے دکھ درد کی سانجھی تھیں۔ اسکے ہاں دو بیٹیاں ہوئیں جو دنیا میں چند دن رہ کر رخصت ہو گئیں۔ اب اسکے کوئی اولاد نہ تھی۔ خان محمد کی پہلی بیوی سے ایک بیٹا جان محمد تھا۔ جنت اسی جان محمد کی بیوی تھی۔ باپ کے مرنے کیبعد جان محمد کا اپنی سوتیلی ماں سے رویہ ٹھیک نہ رہا۔ زہرہ تو اس سے بڑا پیار کرتی۔ اپنی اولاد کی کمی اسکو دیکھ کر پورا کرتی گئیں۔ وہ اس کی بے عزتی کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتا۔
زہرہ کے میاں نے مرتے وقت اپنی طرف سے ایک نیکی یہ کی تھی کہ زمین اور گھر اسکے نام کر دیا تھا۔ اسکے اولاد نہ تھی اور خطرہ تھا کہ کوئی اسکا پرسان حال نہ ہو گا۔ تاہم یہ بات جان محمد کو پسند نہ آئی کہ باپ نے وارث ہوتے ہوئے عورت کے نام سب کچھ کر دیا۔ باپ کے گزر جانے کیبعد تو اسکا رویہ اور بھی برا ہو گیا۔
زہرہ سیدھی سادھی عورت تھی۔ لوگ کہتے کہ دولت تمہارے پاس ہے تم دب کر کیوں رہتی ہو لیکن اسکا ایک ہی جواب ہوتا کہ کوئی برائی کرے مجھ سے نہ ہو۔ میرا بیٹا ہے۔ وہ ایک دن نادم ہو کر ضرور لوٹے گا لیکن جان سدھرنے والا نہیں تھا۔ اسکی بیوی جنت بھی بڑی تیز عورت تھی۔ وہ جس قدر خوبصورت تھی اسی قدر فتنہ پرداز بھی تھی۔ وہ اپنے شوہر سے بھی سنگدلی میں دو ہاتھ آگے تھی۔ کون سا ظلم تھا جو اس نے زہرہ پر نہ کیا لیکن اس نیک بخت نے کبھی اُف تک نہ کی اور برداشت کرتی رہی۔ پے درپے پریشانیوں اور دکھوں نے اسے فالج کا شکار کر دیا۔
اس زمانے میں فالج بڑا تکلیف دہ مرض تھا۔ اب زہرہ کام کیلئے جنت کی محتاج ہو گئی لیکن اسکے دل میں خوف خدا اور رحم نہ آیا۔ زہرہ کو ایک کونے میں ڈال دیا گیا۔ وہ بھوکی پیاسی وہاں پڑی رہتی۔ کسی کو کچھ بتانے کے قابل بھی نہ تھی۔ ویسے بھی وہ صبر کا پیکر تھی اور چپ ہی رہتی تھی۔
جنت اپنے گھر کا دروازہ بند رکھتی کہ کہیں کوئی آس پڑوس نہ آ جائے۔ کب تک یہ بات راز رہتی ۔ ایک دن ساتھ والی ہمسائی کو خبر ہوئی تو دو چار عورتیں مل کر اماں کی عیادت کیلئے آ گئیں۔ دیکھا تو زہرہ کی حالت بہت خراب تھی۔ سردیوں کا موسم تھا۔ گائوں کی سردی اور اس بے چاری معذور بڑھیا پر صرف ایک کھیس پڑا تھا۔ ٹھنڈ سے اسکا جسم نیلا پڑا تھا۔ ساری چارپائی گندگی سے بھری ہوئی تھی۔ زہرہ پر اتنا ظالم کوئی جانور ہوتا تو ابتک مر چکا ہوتا مگر وہ بہت سخت جان تھی۔ کبھی کبھار اسکی آنکھوں سے تکلیف کے مارے آنسو چھلک جاتے مگر وہ زبان سے خاموش ہی رہا کرتی تھی۔ محلے کی عورتوں کو دیکھ کر وہ آبدیدہ ہو گئی۔ سب نے جنت کو برا بھلا کہا اور زہرہ کو نہلا دھلا کر صاف چارپائی پر لٹا دیا۔ وہ سب بلند آواز کلمہ پڑھنے گلیں۔ شاید اسی انتظار میں زہرہ کی سانس چل رہی تھی۔ جب محلے کی عورتوں نے کلمے کا ورد شروع کیا تو زہرہ بھی منہ میں ہلکا پھلکا کلمہ پڑھنے لگیں۔ اسکے ساتھ ہی وہ پرسکون ہوتی چلی گئی اور پھر پتہ نہیں کب اسکی سانسوں کا زہرہ سے رشتہ ٹوٹ گیا۔ لوگوں نے مل کر اسکی تدفین کی۔
اسکے بعد تو جنت کا سکون غارت ہوتا چلا گیا۔ بیٹے کی شادی کی تو بہو بہت لڑاکا ملی۔ وہ بات بات پر اسے زہرہ سے بدسلوکی کے طعنے دیتی۔ جان محمد بوڑھا ہو چکا تھا۔ جوان بیٹے سے روز روز بے عزت ہوتا مگر یہ سوچ کر خاموش رہتا کہ جیسی کرنی ویسی بھرنی ہوتی ہے۔ اس نے بھی کسی سے ایسا ہی سلوک کیا تھا اور آخر ایک دن دنیا سے رخصت ہو گیا۔ جان محمد کیا مرا جنت کیلئے مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ بہو اور بیٹا ایکطرف اسکے پوتے پوتیاں بھی دادی سے انتہائی بدسلوکی کیا کرتے۔ کبھی کبھار تو بیٹا اس پر ہاتھ اٹھا دیتا۔ سب کہتے جو بویا وہی کاٹ رہی ہے یہ بڑھیا۔ اب جنت دماغی مریض ہو چکی تھی۔ سب کہتے اماں زہرہ کیساتھ تو لوگوں کی ہمدردی تھی اسلیے اسکے پاس چلے جاتے لیکن جنت کے پاس کوئی کسی کا جانے کو جی نہیں چاہتا۔ دیکھنا اسکا انجام کس قدر برا ہوتا ہے۔ لوگوں کی کہی بات درست ثابت ہوئی۔ کینسر کیوجہ سے اسکی رنگت ہلدی ہو گئی تھی۔ جسم ہڈیوں کا ڈھانچا بن چکا تھا۔ کروٹ نہ بدلنے کیوجہ سے جسم میں کیڑے پڑ گئے تھے۔ اسکا جسم گلنا شروع ہو گیا تھا۔ اب جنت کو رہ رہ کر زہرہ یاد آ رہی تھی۔ اپنے ظلم کے لیے معافی مانگنے کا وقت بھی اسکے پاس نہیں آ رہا تھا۔
door locked with chains
ایک دن جنت کی بہو اور بیٹا اسکو کمرے میں ڈال کر باہر سے کنڈی لگا کر خود شادی میں دوسرے شہر بچوں سمیت چلے گئے۔ اماں کا آخری وقت تھا۔ وہ اسی رات مر گئی۔ شام کیوقت کسی نے دروازہ کھولا تو عورتوں کو بلا کر تجہیز و تکفین کا انتظام کیا۔ اسکے بیٹے کا انتظار کرنے کا وقت نہیں تھا کیونکہ لاش سڑ رہی تھی۔ اماں کو گائوں کے لوگوں نے ہی دفنایا۔ ویسے بھی اسکے بیٹے کو ماں کی کون سے پرواہ تھی جو اس کا انتظار کرتے اس لیے سب نے اس کو قبر میں پہنچانا ہی بہتر سمجھا۔
یہ تھا ظلم کا انجام۔ لیکن میں یہ سوچ رہی ہوں کیا اب اسکی بہو کیساتھ بھی ایسا ہی ہو گا؟ یقیناً وہ بھی تو اپنے ظلم کا بدلہ پائے گی۔ کب تک ایسا چلے گا؟ بھٹکے ہوئے لوگوں کو کب عقل آئیگی۔