عمران خان بمقابلہ نواز شریف

PML N and PTI

PML N and PTI

اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر معاشرہ میں غریب، محتاج، بیمار، بے سرپرست یتیم اور اپائج لوگ پائے جاتے ہیں جن کی حمایت اور مدد ہونی چاہئے۔ اسی طرح دینی اداروںاور فلاحی اداروں کے لیئے بھی کچھ مصارف کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے دینِ اسلام نے زکوٰة پر ایک خاص توجہ دی ہے جو دراصل ایک طرح سے انکم ٹیکس اور ذخیرہ شدہ سرمایہ پر ٹیکس ہے اور زکوٰة کی اہمیت کے پیش نظر اس کو اہم ترین عبادت میں شمار کیا گیا ہے۔ شوکت خانم میموریل اسپتال بھی ایک ایسا ہی فلاحی ادارہ ہے جہاں ملک کے غریب اور نادار عوام کا مفت علاج کیا جاتا ہے اور ہر سال اس اسپتال کو زکوٰة، صدقات اور قربانی کی کھالوں کی مد میں کروڑوں روپے حاصل ہوتے ہیں ۔

مگر اس بار رمضان المبارک شروع ہوتے ہی نواز لیگ کی جانب سے جاری کئے جانے والے حقائق نامے میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ عمران خان نے شوکت خانم میموریل اسپتال کے نام پر جمع شدہ اربوں روپے کی یہ رقم منی لانڈرنگ کے ذریعے بیرون ملک منتقل کرکے سٹے میں ہار دی ہے جبکہ جواب میں عمران خان نے نواز لیگ کی جانب سے لگائے جانے والے ان الزامات کو نہ صرف من گھڑت اور رمضان المبارک میں جاری شوکت خانم کی فنڈ ریزنگ مہم کو نقصان پہنچانے کا قرار دیا بلکہ انہوں نے نواز شریف سے اُن کی کرپشن پر گیارہ سوالات کے جوابات طلب کرنے کے لیئے مناظرے کا چیلنج بھی کر دیا ہے۔

shaukat Khanum

shaukat Khanum

شوکت خانم میموریل اسپتال ایک غیر سیاسی اور عوام کی خدمت کا فلاحی ادارہ ہے جہاں بلاامتیاز کینسر کے لاکھوں مریضوں کو علاج معالجے کی جدید اور اعلیٰ سہولیات دی جاتی ہیں مگر افسوس کہ سیاست دانوں نے اس فلاحی ادارے کو بھی نہ بخشا۔ مسلم لیگی رہنماء خواجہ آصف کی طرف سے شوکت خانم میموریل کینسر اسپتال اور عمران خان پر منی لانڈرنگ اور صدقات و خیرات سے جمع رقم جوئے میں ہارنے جیسے الزامات ایک ایسے وقت میں سامنے آئے جب رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں لوگ اپنی زکوٰة شوکت خانم اسپتال اور اس جیسے دیگر اداروں کو دیتے ہیں۔ عمران خان پر تنقید ن لیگ کا حق ہے بلکہ تحریک انصاف کے سربراہ پر تنقید کرنے کے بہت سے جواز موجود ہیں مگر شوکت خانم اسپتال کو سیاست کا حصہ بالکل نہیں بنانا چاہئے۔

جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے فہم و فراست دی ہے وہ بہت آسانی سے سمجھ سکتے ہیں کہ یہ سب سازش شوکت خانم میموریل اسپتال کے لیئے کیوں کی جا رہی ہے۔رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں ایسا حقائق نامہ سامنے لانا یقینا اس فلاحی ادارے کی فنڈ ریزنگ مہم کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔ ن لیگ نے عمران خان کے کینسر اسپتال کو نشانہ بنا کر نہ صرف اخلاقی گراوٹ کا ثبوت دیا ہے بلکہ اس اچانک محاذ آرائی کا مقصد صرف گرد اُڑانا ہے، ماحول کو اتنا گرد آلود کر دینا ہے کہ کچھ نظر ہی نہ آئے۔

تحریک انصاف اور ن لیگ کے درمیان ایک عرصہ سے بیانات کی حد تک جنگ جاری ہے اور دونوں پارٹیاں ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی کوشش میں مگن ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ لاہورجلسہ کے بعد تحریک انصاف ایک بڑی قوت بن کر سامنے آئی ہے اور آئندہ انتخابات میں اس کا اصل مقابلہ بھی نواز لیگ کے ساتھ ہی ہوگا۔ صوبہ پنجاب اور خیبرپختونخواہ میں اس جماعت کی مقبولیت کا گراف روز افزوں بڑھتا جا رہا ہے اور اس سے زیادہ نواز لیگ ہی متاثر ہو رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں جماعتوں میں جاری اس جنگ نے اب شوکت خانم میموریل اسپتال جیسے فلاحی ادارے کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ نواز لیگ نے عمران خان اور شوکت خانم میموریل اسپتال پر الزامات لگائے، جواب میں عمران خان نے بھی نواز شریف کی کرپشن سامنے لا کر مناظرے کا چیلنج دے دیا ۔

اس لڑائی میں وزیر داخلہ عبدالرحمن ملک ماچس جلانے اور میڈیا جلتی پر تیل ڈالنے میں مصروف ہے جبکہ صدر زرداری ایوانِ صدر میں بیٹھ کر یقینا تالیاں بجا رہے ہوں گے۔ نواز لیگ کی جانب سے سیاسی لڑائی میں شوکت خانم اسپتال کو نشانہ بنانا قطعاً غلط ہے مگر عمران خان کی بھی زیادہ تنقید ن لیگ پر ہی ہوتی ہے۔ وہ بظاہر دونوں بڑی پارٹیوں کی لیڈرشپ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں مگر شریف برادران پر کچھ زیادہ ہی مہربان ہیں۔اگر پانچ منٹ ن لیگ کو نشانہ بناتے ہیں تو صرف آدھا منٹ پی پی پی کے لیئے مختص ہوتا ہے۔ کیا ن لیگ، پیپلز پارٹی سے زیادہ خراب ہے؟ ن لیگ نے سارے ہی کام بُرے نہیں کئے ہیں کچھ اچھے کام بھی کئے ہیں اور انصاف کا تقاضا یہی کہتا ہے کہ جہاں برائیاں گنواتے ہیں وہاں اچھائیوں کی تعریف بھی کرنی چاہئے ورنہ انصاف نہیں ہوتا۔

Imran khan

Imran khan

ایسے گلے شکوے تو عمران خان سے بھی کئے جا رہے ہیں کہ اُن کے پاس بھی انقلاب کے لیئے پرانے، کھسے پٹے چہروں کے سواکچھ نہیں ہے۔ جس سیاستدان کو کسی پارٹی نے سائیڈ لائن لگایا وہ انقلاب کا بیج لگا کر تحریک انصاف میں شامل ہو گیا۔ جب عمران کو یوتھ پر اعتماد ہے تو پھر اسے ان کرپٹ لوگوں کی ضرورت کیوں محسوس ہو رہی ہے۔ وہ کرپشن کے خلاف نعرے تو لگاتے ہیں مگر سارے کرپٹ ساتھ کھڑے کئے ہوئے ہیں۔ عمران خان نے اسپتال بنایا بہت اچھا کام کیا ہے۔ یہ قابلیت نہیں بلکہ اسے جدوجہد، محنت کہہ سکتے ہیں۔

قابلیت تو تب ہوتی کہ عمران اسپتال کے لیئے کوئی بزنس کھڑا کرتے تاکہ اس کے لیئے ہر سال کھالیں اور دیگر امدادی اپیلیں نہ کرنی پڑتیں۔ عمران صاحب فرماتے ہیں کہ وہ امداد کے بغیر ملک چلائیں گے۔ جو شخص اپنا اسپتال امداد سے چلاتا ہے وہ ملک کیسے امداد کے بغیر چلائے گا۔ عمران خان کو اگر اقتدار مل بھی جائے تو وہ بھی اسی کرپٹ نظام کا حصہ بن جائیں گے۔ خود کرپشن کریں یا نہ کریں لیکن اپنے ساتھیوں کی کرپشن کی گالیاں سب سے زیادہ انہیں ہی سننا پڑیں گی۔اس کے باوجود موجودہ حالات کے تناظر میں عمران خان کی تحریک انصاف دونوں بڑی جماعتوں سے بہتر آپشن ہے۔ تحریر: نجیم شاہ