اسلم کے گھر سے خوب مار دھاڑ اور چیخوں کی ملی جلی آوازیں آ رہی تھیں۔ ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے کسی کو شدید مار ماری جا رہی ہے۔ آوازوں سے ایسا لگ رہا تھا کہ کوئی عورت ہے جسے مار پڑ رہی ہے۔ یہ اسلم سلونگی کا گھر تھا اور یہ اب معمول کی بات تھی کہ انکے گھر سے اس قسم کی آوازیں آئیں۔ اسلم ایک نہایت شریف اور سلجھا ہوا انسان تھا۔ اپنے کام سے کام رکھنے والا۔ کبھی کسی کو کوئی آزار اس سے نہیں پہنچا تھا۔ سارا محلہ بلکہ سارا شہر ہی اسکی شرافت کے گُن گاتا تھا۔ جوانی میں بھی اس سے کسی کو شکایت نہ تھی جہاں سے گزرتا اپنی نگاہیں نیچی رکھتا۔ بڑوں کا ادب تو جیسے اس کی گٹھی میں پڑا تھا۔ اسلم کی ماں بھی ایک نہایت شریف النفس عورت تھی۔ اسلم کے بچپن میں ہی بیوگی کا دکھ سہنا پڑا مگر اس عورت نے ہمت نہ ہاری اور محنت مزدوری کر کے اسلم کو (بی۔ اے) تک پڑھا ہی دیا۔ اسلم کی شادی بھی دھوم دھام سے ہوئی اور ایک اور فرد کا گھر میں اضافہ ہو گیا۔ زرینہ اسلم کی بیوی تھی۔ کچھ عرصہ تو بڑے چائو اور پیار سے رہی مگر ایک سال بعد ہی پر پرزے نکالنے شروع کر دیے۔
injured mother
دکھوں سے بھری اسلم کی ماں کی زندگی کو اس نے اور زیادہ دکھی کرنا شروع کر دیا۔ اسلم کو تو معلوم نہ تھا کہ گھر میں کیا ہوتا ہے کیونکہ اسلم کے سامنے وہ اسلم کی ماں کے آگے بچھی جاتی تھی اور جب اسلم کام پر چلا جاتا تو زرینہ اپنی ساس کو جاتی کی نوک پر رکھتی اور طعنوں سے ہر وقت دل کا تار تار کرتی رہتی اور اسلم کی ماں بیچاری اپنی قسمت کو روتی رہتی اور دل ہی دل میں کڑہتی رہتی مگر اپنی زبان کو چپ کا تالا لگائے رکھتی۔ بدقسمتی سے اسلم کا تبادلہ ہو گیا اور وہ تو خراماں خراماں دوسرے شہر اپنی ملازمت کیلئے چل دیا اس چیز سے بالکل بے خبر کہ اسکی بیوی اسکی ماں کیساتھ کیا سلوک کرتی ہے۔ اسکا ارادہ تھا کہ وہاں پر سکونت پذیر ہو کر اپنی ماں اور بیوی کو بھی لے جائیگا۔ ماں نے خون روتی آنکھوں سے اپنے جگر گوشے اور متاع زندگی کو رخصت کیا۔ اسلم کے جاتے ہی زرینہ کو تو جیسے کھلی چھٹی مل گئی جیسے وہ مادر پدر آزاد ہو گئی۔ اسکا ہاتھ بھی اب اسلم کی ماں پر اٹھنے لگا تھا۔ آہستہ آہستہ وہ بڑھتی رہی اور باقاعدہ اپنی بوڑھی ساس کو تھپڑوں لاتوں اور گھونسوں سے مارنے لگی۔ اسلم بیچرہ اپنے گھر کے حالات سے بے خبر گھر سے دور اپنی ماں اور بیوی کو بلانے اور انکے بہترین مستقبل کیلئے محنت کر رہا تھا۔ زرینہ کے نام ہی وہ پیسے بھیج دیتا تھا اور ہر ماہ باقاعدگی سے زرینہ کو خط میں لکھتا تھا کہ میری اماں کو پانچ سو روپے دیدینا۔ زرینہ بھی جواب میں لکھ دیتی میں تمہاری ماں کی بہت خدمت کرتی ہوں اور پیسے دیدیتی ہوں جبکہ معاملہ اسکے بالکل برعکس ہوتا تھا۔
mother child
یونہی دن بیتتے گئے اور اسلم کو چار سال کا عرصہ گزر گیا اور خدا نے شادی کے ایک سال بعد ہی اسکو ایک پیارے سے بیٹے سے نوازا۔ ایک روز حد ہو گئی اسلم کی مں نے جو دو دن سے بھوکی تھی اپنی بہو سے روٹی مانگی کھانے کیلئے۔ زرینہ کو تو جیسے جلال سا طاری ہو گیا اور وہ اٹھی اور کپڑے دھونے والا ڈنڈا اتھا کر مارنا شروع کر دیا۔ مارتی جاتی اور ساتھ ساتھ مغلفات بکتی جاتی۔ اچانک ڈنڈا کی ضرب اسلم کی ماں کی کنپٹی پر پڑی اور وہ کاری ضرب کی تاب نہ لاتے ہوئے اس جہانِ فانی سے یکدم ہی کوچ کر گئی۔ اب زرینہ کو تو جیسے جان کے لالے پڑ گئے وہ سخت گھبرائی اور اپنی ماں کو بلایا۔ ماں کو جب سارے معاملے کی نزاکت کا احساس ہوا تو اس نے زرینہ سے کہا کہ کسی کو بتانا نہیں بس جو پوچھے تو کہنا کہ سیڑھیوں سے گر گئی تھی اور مر گئی۔ یہ سن کر زرینہ نے رو رو کر اور چلا چلا کر سارا محلہ اکٹھا کر لیا۔ سب کو یہی بتایا گیا کہ بوڑھی اماں چھت پر سے پھسل کر سیڑھیوں کے رستے نیچے آ گری اور چوٹ لگنے سے مر گئی۔ اسلم کو بھی اطلاع دی گئی وہ بیچارہ روتا روتا گھر پہنچا اور بیوی کی بات پر یقین کر کے قسمت کو کوستا رہا۔ زرینہ خوش تھی کہ چلو کسی کو بھی پتہ نہ لگا اور جان بھی چھوٹ گئی مگر خدا کے علاوہ ایک اور ہستی بھی ایسی تھی جو یہ سب دیکھ رہی تھی۔ وہ تھا زرینہ کا بیٹا جو صرف تین سال کا تھا مگر اس نے اپنی ماں کو دادی کو مارتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔ اس نے اپنی ہی توتلی زبان میں باپ کو بتانے کی بہت کوشش کی کہ اسکی دادی کی موت کیسے ہوئی مگر اسلم اسکی کسی بات کو سمجھ نہ سکا۔
A man cries
آج جو اسلم کے گھر سے آوازیں آتی ہیں وہ یہی بیٹا ہی تو ہے جو اپنی ماں کا اسطرح احترام کرتا ہے جیسے کبھی زرینہ اپنی ساس کی تواضع اور خاطر مدارت کیا کرتی تھی۔ اب اسکا بیٹا شہر کا ایک نمبر کا لوفر، لفنگا اور بدمعاش ہے۔ روزانہ اپنی ماں کی اسی طرح دھلائی کرتا ہے جیسے وہ اپنی ساس کی کیا کرتی تھی۔ اسلم بیچارہ تو اب خاموش ہی ہو کر رہ گیا ہے اور اکثر تنہائی میں بیٹھا یہ سوچتا رہتا ہے کہ میں نے تو کبھی بھی زندگی میں اپنی ماں کی نافرمانی نہیں کی تھی۔ نہ ہی میری بیوی نے ہی کبھی ایسا سلوک میری ماں کیساتھ کیا تھا تو پھر آسمان والے نے میری تقدیر ایسی کیوں لکھ دی۔ بالکل بھی اس بات سے انجان اور بے خبر کہ یہ اسے اس بات کی سزا مل رہی تھی کہ اس نے اپنی ماں کوکسی کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا تھا اور زرینہ کو تو سزا ملنی ہی تھی اپنے کیے۔ یہاں پر بھی اور اگلے جہان بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔