ساحلِ مراد

TARIQ BUTT

TARIQ BUTT

برِ صغیر پاک و ہند میں انگریزوںکے خلاف بر سرِ پیکار مسلمانوں کے مختلف گروہوںا ور جماعتوں میں تحر یکِ آزادی کے حوالے سے تین قسم کی سوچیں بڑی واضح طور پر کار فرما تھیں ۔١۔ مذہبی پیشوائیت کی سوچ تھی کہ مسلمانوں کو ہند وئو ں کو ساتھ باہم مل کر ایک ہی ملک میں رہنا چائیے تا کہ باہم مل جل کر رہنے سے اسلام کی تبلیغ سے غیر مسلموں کو مسلمان بنانے کا مشن جاری رکھا جا سکے ۔ مذہبی پیشوائیت کے نزدیک غیر مسلموں کو اسلام کی دعوت کا پیش کر کے مسلمان بنایا جانا ہی ان کی ساری سوچ کا مرکزی نقطہ تھا ۔ انھیں اس بات کی کوئی فکر دامن گیر نہیں تھی کہ نئے جمہوری ڈھانچے میں مسلمانوں کا کردار کیا ہو گا، مسلمان اپنا علیحدہ تشخص کیسے قائم رکھ سکیں گئے ، حکومتی امور میں ان کی آواز کتنی توانا ہوگی اورمسلمان اپنے مستقبل کو کیسے محفوظ رکھ سکیں گئے ۔

ان کی ساری سوچ کی سوئی دعوتِ اسلام پر آ کر اٹک گئی تھی اور وہ دعوتِ اسلام میں پوشیدہ ثواب کے تصور کے سامنے زندگی کے بے رحم حقائق کو دیکھنے سے معذور تھے۔ جمیعت العلمائے اسلام، مجلسِ احرار، خاکسار تحریک اور جماعت اسلامی اس مکتبہ فکر کی شدید حامی تھیں۔ان کی سوچ یہ تھی کہ مسلمانوں نے چونکہ اس خطے پر ایک ہزار سال تک حکومت کی ہے لہذا مسلمان آزادی حاصل کر نے کے بعد بھی اس تسلسل کو قائم رکھتے ہوئے غیر مسلموں اور ہندوئوں کو اپنی غلامی اور اطاعت پر مجبور کر سکتے ہیں لیکن اپنے اس کمزور موقف کے حق میں ان کے پاس کوئی مضبوط دلیل نہیں تھی کہ جو کچھ وہ سوچ رہے ہیں وہ نئی دنیا کی نئی حقیقتوں میں رو بعمل کیسے ہو گی اور جمہوری دنیا میں اکثریت کے بل بوتے پر فیصلے ہو نے کی صورت میں مسلمان کہاں کھڑے ہوں گئے کیونکہ وہ تو اقلیت میں ہیں۔

علامہ اقبال نے مذہبی پیشوائیت کی غیر منطقی سوچ، فکر، رویوں اور خوابوں میں زندہ رہنے کی عادت کو جس خوبصورت انداز میں الفا ظ کا روپ عطا کیا ہے وہ بے مثال بھی ہے اور عبرت انگیز بھی ہے۔ ہوائی قلعے تعمیر کرنا اور گفتار سے خوبصورت محل تعمیر کرنے کا فن مذہبی پیشوائیت کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہوتا ہے ا سی لئے وہ کوئی بڑ اکارنامہ سر انجام دینے کی بجائے لفظو ں کی بحث میں الجھی رہتی ہے اور لفظوں کی اس جنگ میں کوئی اسے مات نہیں دے سکتا کیونکہ ان کے پاس خوبصورت الفاظ کا یسا ذخیرہ ہوتا ہے جو کبھی بھی ختم نہیں ہو تا

برِ صغیر پاک و ہند کے سارے مسلمان خاند ان جن میں لودھی ۔خلجی، التمش۔بلبن۔ایبک اور مغل خاندان زیادہ با اثر تھے قصہِ پارینہ بن چکے تھے ۔ محمود غزنوی اور نادر شاہ کی تاریخی فتو حات اور طنطنے تاریخ کے اوراق میں دفن ہو چکے تھے۔ اب نئی حقیقتیں اور نئے چیلنجز تھے اور مسلمانوں کو انہی حقائق میں زندہ رہنا تھا اور اپنی بقا کیلئے کسی ایسی نئی راہ کا انتخاب کرنا تھا جس میں مسلمانوں کا مستقبل محفوظ ہو جائے۔ مذہبی پیشوائیت کیلئے تدبر، فکر اور اجتہاد شجرِ ممنوعہ ہوا کرتے ہیں اور پھر جنکی ساری عمر تقلید کی وادیوں میں سفر پیمائی میں گزری ہو وہ نئی سوچ کو کس طرح قبول کر سکتی ہے ۔
اسکا المیہ یہی ہے کہ وہ آگے بڑھنے کی بجائے وقت کی طنابیں پیچھے کی جانب کھینچنے کی مشق کرتی رہتی ہے جسکی وجہ سے اسے خفت اور شکست کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ ایسی قیادت جو وقت کے جدید تقاضوں کو سمجھنے سے قاصر ہو قائدانہ جوہر سے کہاں لیس ہو سکتی ہے۔ رجعت پسندانہ سوچ کی حامل کسی بھی شخصیت سے قیادت کی امید رکھنا کسی با نجھ عور ت سے اولاد کی امید رکھنے کے مترادف ہوتا ہے۔ مذ ہبی پیشوائیت جدید دور کے تقاضوں کا ادراک کرنے کی بجائے ماضی میں زندہ ر ہنا چاہتی تھی اور شمشیر زنی اور جہاد سے فتح کے خواب دیکھ رہی تھی ۔حا لانکہ ان کی اپنی شمشیریں زنگ آلود بھی تھیں اور ٹوٹیں ہوئی بھی تھیں جن سے فتح کی امید رکھنا اور فتح حا صل کرنا خود فریبی کے سوا اور کچھ بھی نہیں تھا لیکن مذہبی پیشوائیت تو ساری عمر ایسی ہی خود فریبی میں مبتلا رہتی ہے جسکی وجہ سے زندگی کی دوڑ میں سب سے پچھلی صفوں میں چلی جاتی ہے اورا صل اھداف سے صرفِ نظر کر جاتی ہے۔

Quaid e Azam

Quaid e Azam

مذہبی پیشوائیت کے بالکل بر عکس قائدِ اعظم محمد علی جناح ابتدا میں سیکو لر سوچ کے حامل سیا ست دان تھے اور متحدہ ہندوستان کے سب سے بڑے علمبردار تھے۔ ان کے نزدیک مذہب انسان کا پرائیویٹ معا ملہ ہے لہذا اس کا ریاست کے امور سے کو ئی تعلق نہیں ہونا چائیے ۔ جو لوگ قائدِ اعظم محمد علی جناح کی نجی زندگی سے بخوبی واقف ہیں وہ اس بات کی گواہی دیں گئے کہ قائدِ اعظم محمد علی جناح کا اپنی ذاتی زندگی میں مذہب سے کوئی خاص تعلق نہیں تھا۔ جو شخص بوٹوں سمیت مسجد میں گھس جائے مذہب سے اس کی دلچسپی کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ قائدِ اعظم محمد علی جناح ایک عملی سیاست دان تھے اور وہ ہندوستان کی آزادی کے مسئلے کا سیاسی حل چاہتے تھے۔ ہندو مسلم اتحاد کے سفیر سے یہی توقع کی جا سکتی تھی کہ وہ ایک متحدہ ہندوستان کا مقدمہ لڑنا پسند کر ے گا اور ان کی ابتدائی سیاست ان کے اسی اندازِ فکر کی ترجمان تھی۔

مسلم لیگ نے 1936 کا الیکشن متحدہ ہندوستان کی اسی سوچ کے تحت لڑا جس میں مسلم لیگ کو شکستِ فاش سے دوچار ہو نا پڑا۔سارے ملک میں اس کا مکمل صفایا ہو گیا اور کانگریس نے ہر طرف کامیابی کے جھنڈے گاڑ دئے اور سارے صوبوں میں اپنی حکومتیں تشکیل دے ڈالیں اور مسلم لیگ منہ دیکھتی رہ گئی کہ اس کے ساتھ یہ کیا ہو گیا ہے۔شکست اور وہ بھی اتنی بری اور ذلت آمیز شکست۔ اب اسی شکست سے قائدِ اعظم کو فتح کی بنیادیں اٹھا نی تھیں اور فتح کیلئے اسے کسی ایسے نظریے کی ضرورت تھی جو اپنے اندر قوت بھی رکھتا ہو اور جو مسلمانوں کی بقا کا ضامن بھی ہولہذا اسے اسی تصور کی طرف لوٹ جانا پڑا جو ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے 1930میں الہ آباد کے مقام پر دیا تھا اور جسے قائدِ اعظم نے1930میں اقبال کے ذاتی خیالات کہہ کر رد کر دیا تھا ۔ ذاتی مشاہدات،تجر بات،وقت کی بے رحم سچائیوں، اسباق و تجربات اور ہندو کی مکارانہ سوچ کے کے عملی مظاہروں کو بصیرت کی آنکھ سے دیکھنے کے بعد قائدِ اعظم اس نتیجے پر پہنچے کہ درویش صفت اقبال کے تصور میں ہی ہندوستاں کے مسائل کا حل ہے اور یہی وہ نظریہ ہے جو مسلمانوں کی بقا کا ضامن بن سکتا ہے لہذا نئی امنگوں کے ساتھ وہ میدانِ سیاست میں نکلے اور پھر وہ کچھ ہو گیا جس پر ا ہلِ ِ سیاست آج تک حیران و ششدر ہیں ۔۔

ڈاکٹر علامہ محمد اقبال جو مسلمانوں کی نشاةِ ثانیہ کے علمبردار بن کر ابھرے تھے اور ایک علیحدہ اسلامی مملکت کا خواب دیکھ رہے تھے جس کا مکمل خاکہ انھوں نے 1930 میں میں اپنے صدارتی خطبے منعقدہ الہ آباد میں پیش کر دیا تھا ۔انھیں اپنے اس تصور کو عملی جامہ پہنانے کیلئے کسی ایسی کرشماتی شخصیت کی ضرورت تھی جو اس میں حقیقت کے رنگ بھر دے اور مسلمانا نِ ہند کا مستقبل محفوظ کر دے۔ پورے ہندوستان میں اپنے خواب کو تعبیر عطا کرنے کیلئے ان کی نگاہیں جس کرشمہ ساز شخصیت پر جا کر رک گئیں وہ قائدِ اعظم محمد علی جناح کی شخصیت تھی لیکن مشکل یہ تھی کہ یہ کرشماتی شخصیت متحدہ ہندوستان کی علمبردار تھی۔ دوسرے معنوں میں یہ شخصیت ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کے نظریات کی بالکل ضد تھی ۔

Dr Allama Iqbal

Dr Allama Iqbal

لیکن ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کو یقین تھا کہ علیحدہ اسلامی مملکت کا خواب اسی شخصیت کے ہاتھوں لباسِ حقیقت میں جلوہ گر ہو گا لہذا اس نے اس شخصیت کو اپنی فکر سے ہم آہنگ کرنے کیلئے اپنی کوششوں کا آغاز کر دیا۔ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کو قائدِ اعظم محمد علی جناح کو اپنا ہمنوا بنا نے میں دس سال کا عرصہ لگا تب کہیں جا کر قائدِ اعظم نے مارچ 1940 میں علیحدہ مملکت کے قیام کا مطالبہ پیش کیا جو اقبال کی فکر کا آئینہ دار تھا ۔قائدِ اعظم محمد علی جناح جیسی نابغہ روزگار شخصیت بھی ابتدائی ایام میں اس حقیقت کا بر وقت ادراک نہ کرسکی جسے ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کی دور رس نگاہیں دیکھ رہی تھیں ۔شروع شروع میں قائدِ اعظم نے بھی علامہ اقبال کے علیحدہ اسلامی ریاست کے تصور کے متعلق یہی کہا تھا کہ یہ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کے ذاتی خیالات ہیں مسلم لیگ کا بحثیتِ جماعت اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

قائدِ اعظم کو کیا خبر تھی کہ جس تصور کو وہ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کے ذاتی خیالات کہہ کر رد کر رہے ہیں اسی تصور پر ا نھیں نوعِ انسانی میں برپا ہونے والی آزادی کی بے شمار جنگوں میں سب سے منفرد جنگ کی قیادت کرنے کا اعزا حاصل ہو گا اور انکی اپنی قوم اس جنگ میں فتح یابی پر انھیں قائدِ اعظم کے عظیم الشان خطاب سے نوازے گی اور اس کی یہ فقید المثال جدو جہد آنے والے زمانوں میں حریت پسندوں کیلئے مشعلِ راہ ہو گی۔وہ جنگ جو تاریخِ انسانی کی منفرد جنگ ہے اسی کے بطن سے ١٤ اگست ١٩٤٧ کودنیائے اسلام کی سب سے بڑی ریاست تخلیق ہوئی تھی جسے دنیا پاکستان کے نام سے پکارتی ہے۔ تحریر : طارق بٹ