موجودہ جمہوری نظام نے عوام کا جینا ہی نہیں بلکہ مرنا بھی مشکل کردیا ہے ۔ پاکستانی عوام نے اللہ اللہ کرکے فوجی حکومت سے اس لیے جان چھوڑائی تھی کہ سیاست دانوں نے ان سے ووٹ مانگنے آنا ہوتا اس لیے وہ ان کے مسائل کو بہتر طریقے سے سمجھتے ہیں ۔عوام کا خیال تھا کہ پرویزمشرف کی حکومت ختم ہونے پر جو جمہوری حکومت بنے گی وہ عوام کے زیادہ قریب ہوگی ۔لیکن موجودہ حکومت نے عوام کو اس قدر بے زار اور بدحال کردیا ہے کہ عوام دوبارہ فوجی حکمرانوں کو یاد کررہی ہے ۔گزشتہ دنوں امریکا سے شائع ہونے والے اخبار واشنگٹن پوسٹ میں پاکستان کے حوالے سے ایک سروے شائع ہوا۔اخبار لکھتا ہے کہ پاکستان میں امن وامان اور،روزگارتباہ ہونے کے باعث عوا م ایک بار پھر فوج کو یاد کررہی ہے۔
مہنگائی کا یہ عالم ہے کہ مشرف کے جانے کے بعد بجلی 500فیصداور اسی طرح باقی ضروریات زندگی بھی سو سے دوسوفیصد تک مہنگی ہوچکی ہیں۔جس پر لوگوں کا خیال ہے کہ فوجی حکومتوں کے دوران ان کی حالت جمہوریت کے مقابلے میں کہیں اچھی تھی ‘اخبار لکھتا ہے کہ لوگ جنرل ضیاء الحق کے دور کو بڑی شدت سے یاد کرتے ہیں ۔قارائین اس سروے کی ایک بات تو بالکل سچ ہے کہ لوگ جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت کو یاد کرتے ہیں ۔لیکن راقم کے خیال میں جمہوریت آمریت سے بہت بہتر ہے اگر عوامی نمائندے قوم کے ساتھ مخلص ہوں تو۔جس کی زندہ مثال چین کی صورت میں آپ کے سامنے ہے ۔پاکستان کا ہمسایہ ملک چین تقریبا 63برس پہلے آزاد ہوا۔اس حساب سے چین پاکستان سے دو سال چھوٹا ہے لیکن اگر ہم ترقی کے حساب سے دیکھیں تو پاکستان زیادہ نہیں تو کم ازکم ایک صدی چین سے پیچھے ہے ۔
کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ 1949ء کو آزاد ہونے والا چین نئی صدی میں دنیا کی سب سے بڑی معاشی و اقتصادی طاقت بن کر ابھرے گا۔چین کی ترقی کا راز مشکل اور بڑے فیصلے اور ان پر سختی سے عمل درآمد ہے۔چین میں نگرانی کا نظام موثر بنا کرکرپشن کی سزا موت مقرر کردی گئی ۔شفافیت کی حوصلہ افزائی کی گئی اور ان تمام حکمت عملیوں کے نتائج اور ثمرات سے عوام کو اچھی طرح آگاہ کیا گیا۔انتہائی مشکل اور سخت فیصلوں پر بین الاقوامی دبائو کے باوجودسختی سے عملدرآمد کیا گیا۔کرپشن کی سزاموت اور باقی جرائم کی سخت ترین سزائوں کے قانون پرسختی سے عملدرآمد کی وجہ سے ملک کالی بھیڑوں سے پاک ہوگیا۔چین کے وسائل اور قومی خزانے پر بری نظر رکھنے والے چور،ڈاکوسمجھ گئے یہاں دال نہیں گھلنے والی اور وہاں سے غائب ہوگئے ۔اس طرح محب وطن ۔محنت کش ،فرض شناص،جفاکش اور وفادار طبقے کی حوصلہ افزائی ہوئی ،ملک کے اہم ترین انتظامی عہدوں پرایمان داراور محب وطن لوگوں کو اپنا حقیقی کردار ادا کرنے کا موقع ملاجس کی بدولت ایک لاغر اور کمزور قوم نے ایسی ترقی کی کہ دنیا کو حیران کردیا۔آج چین کا سکہ دنیا میں ہر جگہ چلتا ہے۔
China
معاشی لحاظ سے چیں جاپان کو بھی پیچھے چھوڑ چکا ہے ۔ دنیا کی بہترین کمپنیوں میں امریکا کے بعد چین کا نام آتا ہے۔ میری نظر میں چین کی ترقی کا راز کرپشن کی سزا موت طے کر کے اس پر سختی عملدرآمد کرنے میں ہے ۔کیونکہ کرپشن ایک ایسا درخت ہے جس کی ، رشوت ،سفارش ،اقربا پروری شاخیں ہیں ۔چین نے اس درخت کو اگنے سے پہلے ہی کاٹ دیا جس کی وجہ سے آج چینی قوم باوقار زندگی بسر کررہی ہے ۔پاکستانی قوم نے شروع سے ہی کرپٹ لوگوں کو سزا دینے کی بجائے ملک کے اعلیٰ ترین ایوانوں میںبیٹھا دیاجس کی وجہ سے محب وطن طبقہ ذلیل ورسوا ہوکرخاموشی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔آج پاکستان میںکرپشن کا درخت اتنا تناور ہوچکا ہے کہ اس کی شاخوں پررشوت ،سفارش اور اقرباپروری پر بے روز گاری ،لوڈشیڈنگ ،دہشتگردی،مہنگائی،بدامنی،ٹارگٹ کلنگ،ناانصافی،کی شکل میں پتے ،پھول اور پھل نکل آئیں ہیں ،یہ درخت بہت سایہ دار ہوچکا ہے جس پرہزاروں خون خوار پرندوں نے کنکریٹ سے اپنے گھونسلے بنا لیے ہیں اور بہت سے خون خوار جانور وں نے اس کی گہری چھائوں میں اپنے محلات تعمیرکرلیے ہیں۔
Asif ali zardari
یہ خون خوار پرندے اور جانور جن کا اوڑھنا بچھونا کرپشن ہے پچھلے 65سالوں سے پاکستان کے وسائل اور قومی خزانے کوگدھوں کی طرح نوچ نوچ کر کھا رہے ہیں، جس کی وجہ سے ملک میں کاروبار ختم ،معیشت برباداور امن وامان تباہ ہوچکا ہے ۔آج پاکستانی قوم بد ترین بدحالی کے عالم میں خودکشیاں کرنے پر مجبور ہوچکی ہے ۔چین کو اللہ تعالیٰ نے ایسی قیادت عطاکی جس نے بروقت کرپشن کے جن کو بوتل میں ڈال کر بوتل سمندر برد کردی ۔ لیکن پاکستانی قیادت ایسا نہ کرسکی ۔محترم قارائین کہیں ایسا تو نہیں کہ پاکستانی قوم نے وہی بوتل کھول کر کرپشن کے جن کو پاکستان میں پناہ دے دی ہے ؟؟اگر ہم موجودہ نظام کو دیکھیں توسیاسی قیادت میں ایسی کوئی بھی شخصیت نظر نہیں آتی جو کرپشن کے جن کو بوتل میں بند کرنے کی کوشش کرسکے وہ اس لیے کہ سب کے سب پائوں سے لے کرسر کے بالوں تک کرپشن میں لت پت ہیں ۔اورکہیں بھی ایک مجرم دوسرے مجرم کو سزا نہیں دے سکتا ۔ تحریر : امتیازعلی شاکر