آج کل عدالتیں اس بات کا زور و شور سے پرچار کر رہی ہیں کہ ١٩٧٣ کے آئین کا ایک بنیادی ڈھانچہ ہے لہذا عدلیہ اس ڈھانچے سے ماورا کسی بھی قانون سازی کو قبول نہیں کریگی۔ سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ آئین کا و ہ بنیادی ڈھانچہ جس کا ذکر عدلیہ کر رہی ہے کس نے قائم کیا تھا؟ کیا وہ بنیادی ڈھانچہ عدلیہ کا تیار کردہ تھا یا و ہ ڈھانچہ پارلیمنٹ نے تیار کیا تھا۔ اگر وہ ڈھانچہ واقعی عدلیہ کا عطا کردہ تھا تو پھر اسے جوں کا توں رہنے دیا جائے لیکن اگر یہ پارلیمنٹ کا عطا کردہ ہے تو پھر عدلیہ اس پر سانپ بن کر بیٹھنے کی کوشش کیوں کر رہی ہے ؟ عدلیہ پارلیمنٹ کو آئین میں ترامیم کرنے سے کیسے روک سکتی ہے جو کہ اس کا بنیادی حق ہے؟ کوئی ادارہ پارلیمنٹ کو مجبور نہیں کر سکتا کہ اسے آئین کے اندر اس کی مرضی کے حقوق دئے جائیں نہیں تو وہ ایسے آئین کو تسلیم نہیں کریگا جس میں حقوق کا تعین اس کی مرضی سے نہ کیا گیا ہو۔ اگر پاکستان میں اس مجنو نانہ روش کی حوصلہ افزائی شروع ہو گئی تو پھر ملک میں حقو ق کی ایک ایسی جنگ شروع و جائیگی جس کا انجام انارکی اور خانہ جنگی کی صورت میں بر آمد ہو گا۔کس ادارے کے کیا حقوق و فرائض ہیں اس کا فیصلہ پاریمنٹ نے کرنا ہے۔ کیا ١٩٧٣ کے آئین میں جتنے حقوق عدلیہ کو تفویض کئے گئے تھے وہ عدلیہ سے پوچھ کر کئے گئے تھے یا پارلیمنٹ نے اپنی آزادانہ سوچ اور فکر سے عدلیہ کو عطا کئے تھے ؟ آئین میں ترامیم کرنا پارلیمنٹ کا ا ستحقاق ہے اور کوئی ادارہ اس پر قدغن نہیں لگا سکتا۔پاکستان میںایک ایسی روائت موجود ہے جس میں عدلیہ کبھی اسلام اور کبھی بنیادی حقو ق کاسہارا لے کر آئینی ترامیم کو کالعدم قرار دے دیتی ے۔ گلف اور مڈل ایسٹ میںمیں واقع اسلامی ممالک میں بھی عدلیہ ہے وہاں پر بھی اسلام کا نفا ذ ہے لیکن وہاں کی عدلیہ تو اسطرح کے افعال کا اظہار نہیں کرتی اور نہ ہی انتظامی امور میں مداخلت کا عندیہ دیتی ہے۔پاکستان اسلامی دنیا کا وہ واحد ملک ہے جس کے قیام کی مذہبی جماعتوں نے مخالفت کی تھی لیکن اسلامی نظام کے قیام اور آئین کی سربلندی کی سب سے زیادہ دھائی بھی وہی دیتی ہے جو اس کے منافقانہ طرزِ عمل کی غماضی کرتا ہے۔ ذاتی مقاصد کیلئے اسلام کا نام جپنا اور اس کا علم بلند کرنا پاکستان میں معمول کا حصہ ہے اور اتفاق سے عدلیہ بھی اسی ڈگر پر نکل کھڑی ہو ئی ہے ۔
Pakistani Law
آئیے عدلیہ کے اس دعوے کو کہ آئین کے موجودہ بنیا دی ڈھانچہ کی حفاظت کرنا اس کی آئینی ذمہ داری ہے حقا ئق کی کسوٹی پر پر کھنے کی کوشش کریں اور تاریخی حقائق سے اس دعوے کی صداقت کو جانچنے کی کوشش کریں ۔شائد تاریخی حقائق بہتر انداز میں ہماری راہنمائی فرما سکیں۔ اگست ١٩٧٣ کو پاکستان کا پہلا آئین مدون ہوا تو قوم نے سکون کا سانس لیا کہ اب امورِ سلطنت کسی اصول اور ضا بطے کے تحت چلائے جائیں گئے اور فوجی جنتا کے ذریعے شب خونوں کا دور ایک قصہِ پارینہ بن جائیگا ۔فوجی شب خو نوں کو روکنے کیلئے آئین میں دفعہ چھ کا خصوصی اند راج بھی کیا گیا تا کہ فوجی جنتا دفعہ چھ کی موجودگی سے خوف زدہ ہو کر شب خون سے توبہ کر لے اور جمہو ری نظام اپنی منزل کی جانب رواں دواں رہے۔ ١٩٧٣ کے آئین کی تکمیل کے بعد ذولفقار علی بھٹو نے فخریہ اعلان کیا تھا کہ ہم نے پاکستان میں مارشل لاء کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے دفن کر دیا ہے ۔ اب پاکستان کے مقدر کے فیصلے عوام کے ووٹ کی قوت سے ہوا کریں گئے۔ لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ آئین میں دفعہ چھ کی موجودگی کے باوجود فوجی جنتا شب خونوں والی اپنی عادت کو بدلنے کیلئے تیار نہ ہوئی اور جنرل ضیا الحق نے ٥ جولائی ١٩٧٧ کو ١٩٧٣ کے آئین کے خالق ذولفقار علی بھٹو کی آئینی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا اور اس کے خالق کو جو کہ برملا یہ دعوی کرتا تھا کہ مارشل لا کو دفن کر دیا گیا ہے پھا نسی پر چڑھا کر ببانگِ دہل اعلان کر دیا کہ آئین فوجی جنتا کے بوٹوں کے نیچے ہے اوروہ جب چاہے اسے اپنے بوٹوں تلے روندھ ڈالے۔ستم ظریفی کی انتہا یہ ہے کہ عدلیہ نے فوجی شب خونوں کو نظریہ ضرورت کے تحت جائز قرار دے کر آئین میں دفعہ چھ کے اطلاق سے آنکھیں بند کر لیں ۔اصولاّ تو جنرل ضیاالحق پر آئین سے غداری کا مقدمہ قائم کر کے اسے سزا دی جانی چائیے تھی لیکن اس کا کیا کیجئے گا کہ عدلیہ جنرل ضیا الحق کے سامنے آئین و قانون کی سربلندی سے محبت کا کوئی ہلکا سا بھی اشارہ دینے میں ناکام رہی اور یوں جنرل ضیا الحق گیارہ سالوں تک بلا شرکتِ غیرے پاکستان کے مقدر سے کھیلتا رہا اور جمہورت نوازوں کی وہ درگت بنا تا رہا کہ قانون و انصاف کے متوالے جس سے پناہ مانگتے ہیں ۔آج کے جمہوریت کے بہت سے چمپین اسی جنرل ضیا ا لحق کی گود میں بیٹھ کر اقتدار کے مزے لوٹا کرتے تھے لیکن آجکل پی پی پی کی حکومت میں عدلیہ کو ہوا دے رہے ہیں کہ قانون و انصاف کی سر بلند ی کیلئے وہ ڈٹ جائے اور پی پی پی کی حکومت کو فارغ کر کے ایک ایسا سیٹ اپ بنائے جس میں ان کی شمولیت کی بھی کوئی راہ نکل آئے۔آجکل انھیں آئین و قانون کی محبت کا جھوٹا بخار چڑھا ہوا ہے اور آئین و قانون سے وفاداری کا جھوٹا ڈ رامہ بڑی خوبصورتی سے رچا رہے ہیں حالانکہ انھیں آئین و قانون سے جو محبت ہے وہ جمہورت پسندوں پر روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔لوگ اخلاقی تقاضوں کے تحت ان موقعہ پرست افراد کے اصلی چہرے نہیں دکھاتے وگرنہ یہ لوگ تو دفعہ چھ کے تحت بغاوت کے زمرے میں آتے ہیں۔
Constitutional Structure
جنرل ضیاالحق ١٩٧٣ کے آئین کو معطل کر کے پی سی او کے ذریے حکومت چلا تا رہا۔ اس نے آئین میں آٹھویں ترمیم کے تحت سارے اختیارات اپنی ذات میں مرتکز کر لئے ۔ آئین میں ایک خصوصی شق ٥٨ ٹو بی کا اضافہ بھی کر لیا تاکہ جمہوری حکومتوں کو فوجی اشیر واد سے جب چاہیں فارغ کر دیا جائے۔اسی اور نوے کی دہائیاں ٥٨ ٹو بی کی شمشیر زنی کی دہائیاں تھیں جس میں چارحکومتوں کی چھٹی کروائی گئی ۔ جنرل ضیاالحق صدارت کے منصب پر فائز تھا اور جنرل کی وردی بھی پہنے ہو ئے تھا۔ اس کے بارے میں ایک جملہ بڑا مشہور ہو ا کرتا تھا کہ اس نے اچکن کے نیچے وردی پہن رکھی ہے۔ جہاں وردی کی ضرورت ہوتی تھی وہ ودردی زیبِ تن کر لیتا ہے اور جہاں اچکن کی ضرورت ہو تی تھی وہ صدارتی احکامات سے کام چلا لیتاتھا ۔ایک طرف وہ وزیرِ اعظم اور وزیرِ دفاع کے ما تحت تھا تو دوسری جانب آٹھویں آئینی ترمیم کی بدولت وزیرِ اعظم کو فارغ کر سکتا تھا۔اس نے مئی ١٩٨٨ میں اسلامی نظام نافذ نہ کرنے کی پاداش میں محمد خان جو نیجو کی حکومت کو فارغ کیا اور نوے دنوں میں انتخابات منعقد کروانے کا کوئی عندیہ بھی نہ دیا۔اس نے ١٩٨٥ میں غیر جماعتی نتخابات کا انعقاد کیا تھا اور غیر جماعتی اسمبلی کی تحلیل کے بعد ایک دفعہ پھر غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کا انعقاد چاہتا تھا تا کہ ان غیر جماعتی انتخابات کی وجہ سے وہ پی پی پی کا راستہ روک سکے۔اسکے سارے حواری جو آج کل آئین و قانون کے مامے بنے ہو ئے ہیں جنرل ضیاالحق کے مشیروں میں شامل تھے۔ کچھ تو منہ بولے بیٹے بھی تھے اور یہ سارے جمہوریت دشمن مل کر جمہوریت پسندوں کو خوب اذیتیں پہنچاتے تھے ۔ جنرل ضیاالحق کی آئینی ترمیم نے ١٩٧٣ کے آئین کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا تھا اور اسے صدارتی آئین میں بدل ڈالا تھا ۔ وزیرِ اعظم کی حیثیت برائے نام تھی جس کا واحد مقصد جنرل ضیاالحق کی پالیسیوں کا دفاع کرنا تھا۔ جنرل ضیاالحق سیاہ و سفید کا مالک تھا اور اسکے بے پناہ اختیارات میں کسی کو بھی دم مارنے کی مجال نہیں تھی۔وہ عدلیہ کے معزز ججوں کو پی سی او کے تحت فارغ کرتا رہتا تھا اور جسے چاہتا تھا حلف اٹھانے سے روک دیتا تھا ۔عدلیہ کے پاس اسطرح کے کوئی اختیارات نہیں تھے جسطرح کے ا ختیا را ت موجودہ حکومت نے انھیں عطا کر رکھے ہیں۔ ذولفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد اس نے اپنے سب ے زیادہ منظورِ نظر چیف جسٹس انوارالحق کو فارغ کر دیا تھا کیونکہ اب اسکا کوئی مصرف باقی نہیں رہا تھا۔اس نے انوا را لحق سے جو کچھ کروانا تھا وہ کروا لیا تھا لہذا اب وہ بوجھ تھا اور بوجھ کوئی بھی اٹھا نا پسند نہیں کرتا ۔آٹھویں ترمیم سے آئین کا بنیادی ڈھانچہ متاثر ہو گیا تھا۔پارلیمانی نظام اپنی پٹری سے اتار دیا گیا تھا اور جمہوریت کی جدو جہد کرنے والوں کو زندانوں کی بے رحم صعوبتوں کے حوا لے کر دیا گیا تھا۔ پریس کی آزادی اور عدلیہ کی آزادیوں پر قد غنیں لگا دی گئی تھی۔صحافیوں اور فن کاروں کو کوڑے مارے گئے تھے جو اس بات کا بر ملا اعتراف تھا کہ آمریت اپنی سفاکیت میں ساری حدود کو پھلا نگ گئی تھی ۔
جنرل ضیاالحق کے عبرک ناک موت کے بعد اسلم بیگ نے کچھ عرصہ وہی دھو نس دھاندلی کا وطیرہ اپنائے رکھا اورعدلیہ کے باہمی گٹھ جوڑ سے جمہوری حکومتوں کی چھٹی کرواتا رہا ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی دونوں حکومتیں اسی گٹھ جوڑ کا شکار ہوئیں اور انھیں وقت سے پہلے برخا ست کر دیا گیا۔ ١٩٩٣ میں میاں محمد نواز شریف کو بھی اسی اذیت سے گزرنا پڑا اور اس کی حکومت بھی اسٹیبلشمنٹ کی سازشوں کا شکار ہو ئی۔١٩٩٧ کے انتخا ت میں میاں محمد نواز شریف نے دو تہائی اکثریت سے کامیابی حاصل کی تو پارلیمنٹ نے آٹھویں ترمیم کا خاتمہ کر کے آئین میں چودھویں ترمیم کی منظوری دی جو کہ فوجی جنتا اور اسٹیبلشمنٹ کو بالکل پسند نہ آئی جس کی پاداش میں ١٢ اکتوبر ٩٩٩ا کو جنرل پرویز مشرف نے ملک پر شب خون مار کر اقتدار پر قبضہ کر لیا اور میاں محمد نواز شریف کو ایک معاہدے کے تحت سعودی عرب جلا وطن ہو نا پڑا۔ جنرل پرویز مشرف نے ایک بار پھر جنرل ضیاالحق والا ڈرامہ رچایا اور سترھویں ترمیم کے ذریعے آئین کو ایک دفعہ پھر صدارتی بنا دیا۔عدلیہ آجکل جس آئین کا ذکر رہی ہے کیا وہ آئین مارشل لائی دور میں اپنے بنیادی ڈھا نچے کے ساتھ موجود تھا ؟ کیا صدارتی نظام کا رنگ اس پر بڑا غالب نہیں تھا ؟اگر اس کا جواب اثبات میں ہے تو پھر سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ پھر ہماری فعال عدلیہ کو اس وقت آئین کا وہ ڈھانچہ کیوں یاد نہ آیا اور اس نے مارشل لاء اٰ یڈ منسٹریٹروں کو عدالتوں میں حاضر کر کے ان کی آئین میں لائی گئی ترامیم کو کالعدم کیوں قرار نہ دیا ؟جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے عدلیہ نے جنرل پرویز مشرف کو آئین میں تبدیلی کا اختیار بھی دیا تھا اور اسکے شب خون کو جائز بھی قرار دیا تھا۔سوال یہ ہے کہ پھر پی پی پی کے ساتھ عدلیہ کی کھلی پرخاش کی وجہ کیا ہے؟ کیا آئینی ڈھانچے کی دھائی حقیقت ہے یا اس شور کے پسِ پردہ ذاتی مقاصد کارفرما ہیں؟ ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
۔۔،،،،۔۔ آئینی ڈھانچہ ۔۔،،،،۔۔ طارق حسین بٹ( چیر مین پیپلز ادبی فورم یو اے ای)